تازہ ترین

عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی اس وقت 7.4 بلین ہے جبکہ 2100 تک یہ 11.2 بلین ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے۔

pd-3

بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل ہنگامی طور پر حل طلب ہیں۔

رواں برس یہ دن ’کم عمر لڑکیوں کا خیال رکھنے‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادی دنیا میں آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

pd-4

رواں برس کی تھیم خواتین کے حوالے سے 2 مقاصد پر مشتمل ہے، ایک کم عمری کی شادی۔ دوسرا خواتین کی آبادی میں اضافہ اور ان کی صحت و تعلیم سے متعلق خطرناک مسائل جو دنیا کی ترقی پر اثر انداز ہوں گے۔

بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

یو این ایف پی اے کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

 

چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ یو این ایف پی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر باباتندے کے مطابق خواتین کی کم عمری کی شادی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور خود مختار کیا جائے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کے باعث انہیں اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ڈاکٹر باباتندے کے مطابق، ’حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی حق انہیں دلائے تاکہ انہیں اپنے حقوق اور اپنے خطرات سے آگاہی ہو‘۔

وہ کہتے ہیں، ’لڑکیوں کی خود مختاری آج کے دور میں اتنی ہی اہم ہے جتنا مردوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور کسی کے لیے بوجھ نہ بننا‘۔

 

یونیسکو کے پروگرام ’ایجوکیشن فار آل‘ کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

 

دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کہتی ہیں، ’میں دنیا کی ان 66 ملین لڑکیوں میں سے ایک ہوں جنہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا‘۔

ملالہ یوسفزئی سوات کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی پاداش میں انہیں طالبان کے حملہ کا نشانہ بننا پڑا۔ اب وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ’اگر ہم دنیا کی آدھی آبادی کو پسماندہ چھوڑ دیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے‘۔ وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہیں، ’بے شک تم ایک لڑکی ہو، اور دنیا سوچتی ہے کہ تم کوئی کام نہیں کر سکتیں، تب بھی تم امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو‘۔


 

Comments

- Advertisement -