معاشرے میں لوگ آپ پر اپنی رائے زبردستی مسلط اور محدود کریں گے صرف اس لیے کے آپ ایک خاتون ہیں۔وہ آپ کو کپڑے زیب تن کرنا، کیسے رویہ اختیار کرنا، کس سے ملنا اور کہاں جانا سب سکھانے کی کوشش کریں گے۔ دوسروں کے فیصلوں کے سائے میں رہنے کی بجائے اپنی زہانت کی روشنی میں فیصلہ کریں۔
قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ دنیا میں دو طاقتیں ہیں؛ ایک قلم اور دوسرا تلوار۔ دونوں میں ایک کشمکش اور مقابلہ رہا ہے۔ لیکن تیسری ان سے بھی زیادہ طاقتور قوت عورت ہے۔
آج ہم پاکستان کی ان خواتین کی کامیابیوں کو تذکرہ کرتے ہیں جوپچھلے کچھ عرصہ میں پاکستان کے لیے باعثِ فخر ثابت ہوئیں اور دیگر تمام خواتین کے لیے مینارہ ہیں۔
گلالئی اسمعیٰل اور صبا اسمعٰیل
دو پاکستانی خواتین کو نوجوانوں اور خواتین کے زریعے غیر تششدد معاشرے کو متعارف کروانے کے لیے پریسٹیجیس چراک پرائس ایوارڈ سے نوازا گیا۔این جی او ” اویر گرلز” کی بانیوں کو یہ ایوارڈ نومبر میں سابق فرانسیسی وزیرِ ثقافت کریسٹین البانیل نے پیرس کی ایک تقریب میں قوائے برنلے میوزیم میں دیا۔
فائزہ نقوی
امن فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن فائزہ نقوی کو پاکستان کے تعلیم اور صحت کے میدان میں واضح کارکردگی پر پہلا ایوارڈ گلوبل انسانیت ایوارڈ برائے صحت دیا گیا۔
نگہت داد
لائر اینڈ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر نگہت داد کو نومبر 2016 میں ڈچ حکومت کی جانب سے ہیومن رائٹس ٹیولپ ایوارڈ دیا گیا۔2012 میں 34 سالہ کارکن نے ڈی آر ایف کی بنیاد رکھی یہ ایسا غیر منافع تنظیم ہے جس کا مقصد ڈیجیٹل حقائق کے بارے میں آگاہی اور آن لائن زہنی تشدد سے کیسے سامنا کیا جائے۔اس تنظیم نے ٹیلیفونک سروس کے گاہکوں کی زاتی معلومات کا گورنمنٹ کے اداروں کو مہیا کرنے پر بھی متحرک مہم چلائی۔
تبسم عدنان
پاکستان کی متحرک سماجی کارکن نے 2016 میں نیلسن منڈیلا – گراسا مشیل ایوارڈ اپنے نام کیا۔خویندو جرگہ کی بانی ، تبسم عدنان نے گھریلو تشدد کا نشانہ ہوتے ہوئے انہوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور 2015 میں سیکرٹری آف اسٹیٹ خواتین ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔
منیبہ مزاری
منیبہ مزاری پاکستان کی واحد وہیل چئیر تک محدود اینکر ہیں جن کا نام فوربس میگزین ” 30 انڈر 30 لِسٹ میں شامل ہوا۔ان کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ 21 سال کی عمر میں 2007میں پچھلے سات سالوں سے ایک کار ایکسیڈینٹ کے نتیجے میں سپائنل کارڈ زخمی ہونے سے مفلوج ہوگئیں۔
اقوامِ متحدہ میں خواتین کو با اختیار بنانے اور جنسی برابری کی آواز اٹھائی اورمنتخب ہونے والیں پاکستان کی پہلی سفیر بنیں۔
فضا فرحان
فضا فرحان توانائی کے میدان میں انٹرپرینیئر ہیں جو سبز توانائی کی تشہیر کے لیے کام کرتی ہیں۔وہ بخش فاؤنڈیشن کی سی ای او اور بخش انرجی کی ڈائریکٹر ہیں۔وہ 2015 کے فوربس میگزین کے شمارے میں 30 نامور لوگوں میں شامل ہیں۔انہوں نے خواتین کو معاشی بااختیار بنانے کے لیے اقدامات کیے اور اقوامِ متحدہ کی ممبر منتخب ہوئیں۔
نرگس ماوالوالا
امریکی نژاد پاکستانی نرگس کو عظیم تارکِ وطن ایوارڈ سے نوازا گیا۔نرگس کا شمار 38 عظیم تارکِ وطنوں میں ہے جنہیں اسی ایوارڈ سی نیویارک میں کارنیجی کارپوریشن کی طرف سے دیا گیا۔گریٹ امیگرینٹ ایوارڈ ان شہریوں کے لیے ہےجو امریکہ کو طاقتور بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔2006 سے اب تک کارنیجی ایسوسی ایشن بہت لوگوں کو یہ ایوارڈ دے چکا ہے۔
جہاں آرا
خواتین انٹرپرینیئرز کی جب بات کی جائے تو جہاں آرا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ پاشا ( پاکستان سافٹ ویئر ہاوسز ایسوسی ایشن ) کی عالی دماغ اور متحرک صدر ہیں۔سافٹ وئیر کی مصنوعات اور خدمات پر توجہ مرکوز جہاں آرا کا ہی خیال تھا۔مواصلات اور مارکٹینگ کے شعبے میں پچھلے تین عشرے سےجہاں آرا کا نام کسی تعارف کامحتاج نہیں جو کہ انٹرپرینیئر اور لکھاری بھی ہیں۔
پروین سعید
پروین سعید ایک مایہ ناز صحافی جو پچھلے تئیس سال سے کراچی کے غریب طبقے کو مناسب قیمت پر کھانا مہیا کرتی رہی ہیں۔پروین سعید کھانا گھر کی بانی ہیں جو محض تین روپے میں کم آمدنی والوں کو گرم کھانا دیتےہیں۔یہ طریقہ سینکڑوں غریب مرد اور عورتوں کے لیے بچاؤ رسی کا کام کررہا ہے۔
شرمین عبید چنائے
پاکستان کی فلم میکر آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنوئے نے 38ا ینویل نیوز اینڈ ڈاکیومینٹری ایوارڈ میں اپنی ایک اور ڈاکیومینٹری ” آ گرل ان دی ریور” کے لیے ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ شرمین عبید اپنی دو ڈاکیومینٹریز ” سیونگ فیس” اور ” آ گرل ان دی ریور” کے لیے دو آسکر ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔اس سے پہلے وہ اپنی ایک اور ڈاکیومینٹری ” چلڈرن آف طالبان” کے لیے ایمی ایوارڈز حاصل کر چکیں۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کا نام اور تذکرہ طوالت کے سبب نہیں کیا گیا تاہم وہ بھی پاکستان کے لیے اتنا ہی قیمتی اثاثہ ہیں جتنی مندرجہ بالا خواتین‘ بلکہ پاکستان اور دنیا بھر کی خواتین جنہوں نے باعثِ فخر کام کیے اور دنیا کی پرامنی کے لیے کوششیں کی اتنی ہی قابلِ عزت ہیں۔
یہ طویل فہرست اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین ہر قید اور توقعات سے بڑھ کر زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔مندرجہ بالا فہرست محض چند خواتین ہیں جبکہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اسی عزت کی مستحق ہیں۔میری طرف سے ان تمام پاکستانی خواتین کو خراجِ تحسین جو ہمارےلیے فخر کی وجہ بنیں۔
تحریر و تحقیق: روحیل ورنڈ