تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

مستقبل میں بیماریوں کا علاج موجودہ اینٹی بایوٹکس سے ممکن نہیں ہوگا، ماہرین

اسلام آباد : ماہرین طب نے خبردار کیا ہے کہ اینٹی بایوٹک ادویات تیزی سے اپنا اثر کھو رہی ہیں، اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم کی مزاحمت خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے، جس سے پرانی بیماریاں لوٹ آنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے دنیا بھر میں اینٹی بایوٹک ادویات ناکام ہو رہی ہیں، متعدد بیماریوں کے جراثیم میں اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے،  عالمی ادارہ صحت نے ایسے بیکٹیریا کی فہرست تیار کی ہے، جن پر اینٹی بایوٹک ادویات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا اور وہ انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔

بیکٹیریاز کی فہرست تیار

اس فہرست میں سب سے اوپر ای کولی جیسے جراثیم ہیں، جو اسپتالوں میں داخل کمزور مریضوں کے خون میں جان لیوا انفیکشن یا نمونيا پھیلا سکتے ہیں۔

۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق بیکٹیریا کی بارہ اقسام میں موجودہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف زبردست مزاحمت پیدا ہوچکی ہے، یہ وہ بیکٹیریا ہیں، جن میں ایک سے زائد اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے۔ اس لیے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ ادویہ کے خلاف مزاحمت کے نت نئے راستے تلاش کرلیتے ہیں۔ یہ صلاحیت جینز کے ساتھ دوسرے بیکٹیریا میں منتقل ہوجاتی ہے، نتیجتاً وہ بھی اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کے قابل ہوجاتے ہیں۔

ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ مستقبل میں کچھ بیماریوں کا علاج موجودہ اینٹی بایوٹکس سے ممکن نہیں ہوگا، ایسے میں عام انفیکشن بھی جان لیوا ہو جائیں گے، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اینٹی بایوٹک دوائیں دینے سے قبل بلڈ کلچر ٹیسٹ کرایا جانا چاہیئے۔

اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھ رہی ہے

ڈبلیو ایچ او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر میری پاول کینی کا کہنا ہے کہ اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہمارے پاس طریقہ ہائے علاج محدود ہوتے جارہے ہیں، اگر ہم نے نئی اور طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کی تیاری کا کام ادویہ ساز کمپنیوں پر چھوڑ دیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔

گذشتہ برس عالمی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ جراثیم میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت اور سْپربگز کی وجہ سے 2050 تک ایک کروڑ انسان موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ ممالک کی معیشت بھی شدید متا ثر ہوسکتی ہے۔


اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک  وال پرشیئر کریں۔

 

Comments

- Advertisement -