تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

کراچی: رواں برس مادر وطن پاکستان کا یوم آزادی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز ہمارے وطن کی آزادی کو 71 برس مکمل ہوجائیں گے۔

ہر سال یہ دن ہمیں ہمارے بزرگوں کی قربانیوں اور ان تھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ اس قدر طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ملک کی خدمت اور حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔

اس دن کی تاریخی اہمیت محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ ان مقامات کی سیر کرنا بھی ہے جو قیام پاکستان سے منسوب ہیں یا اس کی یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

آج ہم آپ کو کراچی میں واقع ایسے ہی چند مقامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جہاں یوم آزادی کے دن جانا نہ صرف آپ کے اس دن کو یادگار بنا دے گا بلکہ ایک آزاد وطن کے شہری ہونے کے احساس اور فخر کو بھی دوبالا کردے گا۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

مزار قائد

کراچی اس حوالے سے ایک منفرد اہمیت کا حامل شہر ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی، یہیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اسی شہر میں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

یوم آزادی پر بابائے قوم کی آخری آرام گاہ پر حاضری، فاتحہ خوانی اور پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

سفید سنگ مرمر سے تعمیر کردہ مزار قائد شہر کراچی کے وسط میں واقع ہے۔ مزار کے اندر نہایت خوبصورت فانوس نصب ہیں۔ رات میں جب روشنیاں جل اٹھتی ہیں تو مزار اور اس کے اطراف کا حصہ نہایت سحر انگیز دکھائی دیتا ہے۔

مزار سے متصل باغ بھی بلاشبہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں شام کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں یہاں گزارے گئے وقت کو یادگار ترین بنا دیتی ہیں۔

وزیر مینشن

کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع وزیر مینشن نامی گھر قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے۔

سنہ 1953 میں حکومت پاکستان نے اس عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر قومی ورثے کا درجہ دے دیا جس کے بعد اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا۔

دو منزلوں پر مشتمل اس مکان میں قائداعظم کے زیر استعمال فرنیچر، لباس، اسٹیشنری، ذاتی ڈائری اور قائد اعظم کی دوسری اہلیہ رتی بائی کے استعمال کی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔

یہاں موجود سب سے اہم اثاثہ، جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں، قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔

فلیگ اسٹاف ہاؤس

کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع فلیگ اسٹاف ہاؤس جسے قائد اعظم ہاؤس میوزیم بھی کہا جاتا ہے، قائد اعظم نے 1946 میں خریدا تھا۔ ان کا ارادہ پاکستان کے وجود میں آنے یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس میں قیام کا تھا۔

تاہم قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنے انتقال تک وہیں رہے۔

معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق، ’قائد اعظم نے اپنی زندگی کا ایک روز بھی اس گھر میں نہیں گزارا۔ یہ گھر ان سے منسوب تو ضرور ہے تاہم اسے قائد اعظم ہاؤس کا نام دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے‘۔

قائد اعظم کے انتقال کے صرف 2 دن بعد 13 ستمبر 1948 کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح گورنر ہاؤس سے فلیگ اسٹاف ہاؤس منتقل ہوگئیں۔ اس وقت وہاں موجود تمام نوادرات فاطمہ جناح سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی وہاں رہائش کے دوران ان کے زیر استعمال تھے۔

فاطمہ جناح اس گھر میں 16 یا 17 سال تک رہائش پذیر رہیں۔

موہٹہ پیلیس

کلفٹن میں واقع یہ خوبصورت محل ایک ہندو تاجر چندر رتن موہٹہ نے تعمیر کروایا تھا۔

سنہ 1963 میں یہ محل حکومت پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کردیا جس کے بعد وہ یہاں منتقل ہوگئیں اور اپنے انتقال تک یہیں رہیں۔

خوبصورت محرابوں اور سرسبز باغ پر مشتمل یہ محل اب حکومت سندھ کی ملکیت ہے جہاں اکثر و بیشتر ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

مشہور ہے کہ اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

اکادمی قائد اعظم

قائد اعظم محمد علی جناح کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر قائم کی جانے والی قائد اعظم اکیڈمی، بانی پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں مصدقہ دستاویزات کی فراہمی کا معتبر ادارہ ہے۔

یہ ادارہ وفاقی وزارت ثقافت و کھیل کے ماتحت ہے۔

فریئر ہال

کراچی کا سب سے مشہور اور نمایاں ترین تاریخی اور خوبصورت مقام فریئر ہال ہے جو صدر کے علاقے میں واقع ہے۔ اسے برطانوی راج میں سنہ 1865 میں ایک ٹاؤن ہال کی حیثیت سے قائم کیا گیا۔ اب اس ہال میں ایک خوبصورت آرٹ گیلری اور لائبریری موجود ہے۔

فریئر ہال کے لیاقت نیشنل لائبریری کے نام سے جانے جانے والے کتب خانے میں 70 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قدیم و تاریخی مخطوطے بھی شامل ہیں۔

اسی طرح آرٹ گیلری بھی فن و مصوری کا مرکز ہے جسے صادقین گیلری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان کے معروف مصور و خطاط صادقین نے فریئر ہال کی چھتوں اور دیواروں پر نہایت خوبصورت میورلز (قد آدم تصاویر) بنائی ہیں۔ یہاں صادقین کا ایک ادھورا فن پارہ بھی موجود ہے جس پر وہ اپنے انتقال سے چند دن قبل تک کام کر رہے تھے لیکن موت نے انہیں اسے مکمل کرنے کی مہلت نہ دی۔

فریئر ہال کا طرز تعمیر نہایت خوبصورت ہے جو برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کی سیر کرتے ہوئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے محسوس ہوں گے اور آپ خود کو متحدہ ہندوستان کے زمانے میں موجود محسوس کریں گے ۔

قومی عجائب گھر

کراچی کے علاقے برنس روڈ پر واقعہ برنس گارڈن کے اندر قومی عجائب گھر واقع ہے جو سنہ 1950 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس عمارت میں وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ایک عجائب گھر ہوا کرتا تھا جہاں آج سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی کی بلڈنگ واقع ہے۔

اس عجائب گھر میں 6 گیلریز موجود ہیں جن میں وادی مہران اور گندھارا تہذیب کے نوادرات، منی ایچر فن پارے، اسلامی فن و خطاطی کے نمونے، قدیم ادوار کے سکے، مختلف عقائد کے مجسمے (بشمول گوتم بدھ، وشنو اور سرسوتی دیوی) وغیرہ رکھے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک انتہائی خوبصورت قرآن گیلری بھی ہے جہاں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک کے کئی نادرو نایاب قرآنی نسخے اپنی اصل حالت میں بحال کرکے رکھے گئے ہیں۔

میوزیم میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے زیر استعمال گھڑیاں، قلم اور چھڑیاں بھی موجود ہیں۔

خالق دینا ہال

خالق دینا ہال سنہ 1906 میں بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد یہاں سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد تھا۔

اس ہال کی تعمیر کے لیے سندھ کی ایک مخیر کاروباری شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے رقم فراہم کی گئی جس کے بعد اس ہال کو ان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

قیام پاکستان سے قبل جب ترکی میں خلافت ختم کی جارہی تھی تب برصغیر میں اسے بچانے کے لیے تحریک خلافت شروع کی گئی جس کے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی شامل تھے۔

سنہ 1921 میں برطانوی حکومت نے دونوں رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا۔ مقدمے کی سماعت 26 دسمبر کو اسی ہال میں ہوئی اور دونوں بھائیوں کو 2، 2 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

یہاں ایک وسیع اور متنوع کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی موجود ہے۔

منوڑہ لائٹ ہاؤس

کراچی کی بندرگاہ کے جنوب میں واقع منوڑہ ایک جزیرہ نما ہے جو سینڈز پٹ کی پٹی کے ذریعے کراچی سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں موجود لائٹ ہاؤس کو دنیا کے طاقتور ترین لائٹ ہاؤسز میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

یہ لائٹ ہاؤس سنہ 1889 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ مصروف ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی تھی۔

سنہ 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں اور لینسز سے آراستہ کیا گیا۔ یہ لائٹ ہاؤس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہاں جدید آلات نصب ہیں۔

پاکستان میری ٹائم میوزیم

کراچی میں پی این ایس کارساز پر واقع پاک بحریہ کے میری ٹائم میوزیم کا دورہ بھی ایک معلوماتی دورہ ہوسکتا ہے۔ 6 گیلریوں اور آڈیٹوریم پر مشتمل اس عجائب گھر میں بحری فوج کے زیر استعمال اشیا، آلات اور لباس رکھے گئے ہیں۔

یہاں آبدوز اور بحری جہاز کے ماڈل بھی موجود ہیں جن کے اندر جا کر ان کا معائنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میری ٹائم میوزیم کا دورہ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں معلوماتی تفریح ثابت ہوسکتا ہے۔

پی اے ایف میوزیم

کراچی میں پاک فضائیہ کا عجائب گھر (پی اے ایف میوزیم) بھی موجود ہے جہاں فضائیہ کے زیر استعمال آلات، ہتھیار اور دیگر ساز و سامان نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

یہاں سنہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کا گرفتار کیا گیا ایک طیارہ بھی رکھا گیا ہے جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال طیارہ بھی یہاں موجود ہے۔

نشانِ پاکستان

کراچی کے ساحل پر پاک فوج کی جانب سے بنائی جانے والی قومی یادگار ’نشان پاکستان‘ قومی اتحاد کی علامت ہے۔

یادگار کے مرکزی چبوترے پر نشان حیدر پانے والے 11 شہدا کی مناسبت سے 11 کمانیں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ اندرونی دیواروں پر شہدا کی تصاویر کے ساتھ ان کے بارے میں معلومات بھی درج ہیں۔

یادگار کے مرکزی دروازے کے ساتھ 145 فٹ اونچائی پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے جس کا یوم آزادی کے موقع پر نظارہ کرنا یقیناً حب الوطنی کے جذبات کو گرما دے گا۔

آرٹس کاؤنسل آزادی فیسٹیول

اس یوم آزادی کی شام آرٹس کاؤنسل کے آزادی فیسٹیول میں شریک ہونا نہ بھولیں جہاں شہر بھر سے باصلاحیت نوجوان و بچے شریک ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔

Comments

- Advertisement -