تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

دنیا میں کل کتنا سونا ہے؟

ذرا تصور کریں کہ آپ کسی طریقے سے دنیا میں موجود تمام سونا حاصل کر کے اسے پگھلا کر ایک مکعب کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ اس مکعب کے اطراف کی لمبائی کتنی ہو گی؟ سینکڑوں میٹر؟ ہزاروں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مکعب کا حجم آپ کے اندازے سے کہیں کم ہو گا۔

وارن بفٹ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں تمام سونا اکٹھا کرنے سے ایسا مکعب بنے گا جس کے اطراف صرف 20 میٹر لمبے ہوں گے۔ یعنی یہ ایک کنال سے کم رقبے میں سما جائے گا۔

لیکن بفٹ کو اس تمام سونے کی مقدار کیسے معلوم ہوئی؟

اصل میں ٹامسن روئٹرز جی ایف ایم ایس نامی ایک ادارہ ایسا ہے جو دنیا بھر کے سونے کا حساب رکھتا ہے۔ اس ادارے کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 171,300 ٹن سونا موجود ہے۔ اگر اس سونے کا مکعب بنایا جائے تو اس کا حجم وہی بنے گا جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔

تاہم سبھی اس ادارے کے تخمینے سے متفق نہیں ہیں۔بعض اندازوں کے مطابق یہ مقدار 155,244 سے لے کر 25 لاکھ ٹن تک ہو سکتی ہے۔ موخرالذکر مقدار سے بنایا گیا مکعب فٹ بال کے میدان نصف کو مکمل طور پر ڈھک لے گا۔

سوال یہ ہے کہ ان اندازوں میں اتنا فرق کیوں ہے؟ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ سونے کو بہت عرصے سے زمین سے نکالا جاتا رہا ہے۔ سونے کے تاریخ دان ٹموتھی گرین کے مطابق یہ سلسلہ چھ ہزار برس سے جاری ہے۔

دنیا میں سونے کے سکّے سب سے پہلے 550 قبل مسیح میں موجودہ ترکی کے بادشاہ کروئسوس کے دور میں ڈھالے گئے تھے۔ بہت جلد بحیرۂ روم کے گرد و نواح میں تاجروں اور کرائے کے سپاہیوں کے لیے سونا معاوضے کی ادائیگی کا تسلیم شدہ ذریعہ بن گیا۔

جی ایف ایم ایس کا تخمینہ ہے کہ 1492 تک دنیا بھر میں 12780 ٹن سونا نکالا جا چکا تھا۔تاہم سونے کے سرمایہ کار جیمز ٹرک کا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں کان کنی کے طریقے زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے۔ان کا خیال ہے کہ اصل میں اس وقت تک صرف 297 ٹن سونا ہی نکالا گیا تھا۔

ان کا اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا میں 155244 ٹن سونا موجود ہے۔ جو جی ایف ایم ایس کی مقدار سے دس فیصد کم ہے۔ یہ الگ بات کہ موجودمنڈی میں اس دس فیصد کی قیمت بھی ساڑھے نو کھرب ڈالر بنتی ہے۔تاہم ایسے ماہرین بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ دونوں اندازے غلط ہیں۔

سونے میں سرمایہ کاری کرنے والی ایک کمپنی سے تعلق رکھنے والی جین سکوئلس کہتی ہیں،’صرف فرعون توتخ آمون کا تابوت ڈیڑھ ٹن سونے سے بنا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ان دوسرے مقبروں میں کتنا سونا ہو گا جنہیں لوگوں نے دریافت ہونے سے پہلے ہی لوٹ لیا تھا۔‘
سکوئلس کہتی ہیں کہ چین اس بات کا اعلان نہیں کرتا کہ وہ کتنا سونا نکال رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسی طرح کولمبیا اور اس طرح کے دوسرے ملکوں میں غیرقانونی کھدائی بھی ہوتی ہے۔

ایک اور ادارہ گولڈ سٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ ہے جو سونے کی مقدار کا تخمینہ پیش کرتا ہے۔اس ادارے کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے بینک لاکر اور جیولری بکس خالی کر دیں، تو جو کل سونا حاصل ہو گا اس کی مقدار 25 لاکھ ٹن سے کم نہیں ہو گی۔ تاہم ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

تو پھر کون صحیح ہے اور کون غلط؟ اصل میں یہ سب محض اندازے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ سب غلط ہوں۔لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ زمین میں سے سونا جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔امریکی ریاضیاتی سروے کا خیال ہے کہ اب بھی زمین میں 52000 ٹن سونا موجود ہے جسے دریافت کیا جا سکتا ہے۔تاہم بری خبر یہ ہے کہ ہم جس طرح سونے کو استعمال کرتے آئے ہیں وہ طریقہ بدل رہا ہے۔ اس سے پہلے جو سونا برآمد کیا جاتا تھا وہ شکلیں بدلتا رہتا تھا، کبھی ضائع نہیں ہوتا تھا۔

جیمز ٹرک کہتے ہیں، ’وہ تمام سونا جو تاریخ کی ابتدا سے اب تک نکالا گیا ہے وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے پاس سونے کی گھڑی ہے تو ممکن ہے اس کے اندر موجود سونے کو دو ہزار سال قبل رومنوں نے زمین سے کھود کر نکالا ہو۔‘ تاہم جدید دور میں سونے کو صنعت میں مختلف طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔

برطانوی ارضیاتی سروے کے مطابق حالیہ سونے کی کل پیداوار کا 12 فیصد صنعت میں کھپ جاتا ہے، جہاں اسے مختلف مصنوعات میں اس قدر قلیل مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے کہ اسے دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سونا ’خرچ‘ ہو رہا ہے۔

Comments

- Advertisement -