تازہ ترین

تھرکول منصوبے کاتعمیراتی کام 40 فیصد مکمل

کراچی: تھر کول انرجی منصوبے پر چالیس فیصد کام مکمل کرلیا گیا ہے‘ 4000 میگاواٹ کے اس منصوبے سے ابتدائی طور پر 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی‘ کام کی رفتار مقررہ وقت سے چار مہینے آگے چل رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق صحافیوں کی ٹیم کو اسلام کوٹ سے ملحقہ کول مائننگ سائٹ پر بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے330 میگاواٹ کے یہ دو منصوبے 2019 تک مکمل ہوجائیں گے اور660 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائے گی۔

پراجیکٹ کے دورے کے موقع پر سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے ترجمان محسن ببر کا کہنا تھا کہ کوئلے سے بننے یہ بجلی نہ صرف ملک کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ اس منصوبے سے تھر کے عوام کو روزگار بھی میسر آئے گا جس سے علاقے میں غربت اور پسماندگی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔


چین تھرکول منصوبے میں سرمایہ کاری کرے گا


کوئلے کی کان


تھر میں موجود کوئلے کے ذخائر کو 13 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس وقت بلاک ٹو میں کوئلے کے حصول کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے‘ اب تک چھیاسی میٹر گہرائی میں کھدائی کی جاچکی ہے جبکہ کوئلے کے حصول کے لیے کمپنی کو کل 160 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کرنی ہے۔

کوئلے کے ذخائر سے قبل کھارے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ بھی زمین میں موجود ہے جسے اسی مقصد کے لیے تعمیرشدہ ’گھرانوڈیم‘ میں اکھٹا کیا جائے گا اور آر او پلانٹ کے ذریعے تھر کے عوام کے لیے قابلِ استعمال بنایا جائے گا‘ تاہم مقامی آبادی کی جانب سے ڈیم کی تعمیر پرخدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

Thar coal
کوئلے کی کان کا فضائی منظر

بلاک ٹو میں موجو د 1.57 ارب ٹن قابل استعمال کوئلہ تھر کے کل ذخیرے کا ایک فیصد ہے اور صرف اسی بلاک کے کوئلے سے آئندہ پچاس سال تک 5000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔

کان کنی کے اس منصوبے میں 900 تھری باشندوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے جن میں 30 انجینئرز بھی شامل ہیں‘ اس کے علاوہ 400 چینی ورکرز بھی اس منصوبے پر کام کررہے ہیں۔

Thar coal
کوئلے کی کان پر جاری کام کے مناظر

تعمیراتی کام کی رفتار


تھر کول پراجیکٹ دراصل کئی مختلف پراجیکٹس کا مجموعہ ہے جو کہ کسی بھی توانائی کےمنصوبے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ پاور پلانٹ کے لیے8 ہزار ٹن کا اسٹیل اسٹرکچر تیار ہوچکا ہے اور اس پر مزید کام جاری ہے۔

بوائلر کے لیے واٹر پلانٹ کے دو ٹینک مکمل کیے جاچکے ہیں جبکہ ایڈمن بلاک کے دو فلور مکمل کرلیے گئے ہیں۔ پراجیکٹ پر مختلف اقسام کے استعمال کے لیے پانی کے لیے تالاب بنالیے گئے ہیں اور اس کے علاوہ کولنگ ٹاورز کی تعمیر کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔

Thar coal
پاور پلانٹ پر تعمیراتی کام جاری ہے

اس کے علاوہ بھی متعدد تکنیکی منصوبوں پر دن رات کام جاری ہے اور کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر ان کے کام کی رفتار مقررہ وقت سے چار ماہ آگے ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ اکتوبر 2019 کے بجائے جون 2019 تک 660 میگا واٹ بجلی شروع کرسکیں گے۔

Thar coal
پاور پلانٹ سے ملحقہ دیگر پراجیکٹس

پاور پلانٹ منصوبے میں کام کرنے والے تھر کے مقامی باشندوں کی تعداد 381 ہے جبکہ875 چینی کارکن اس پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔

ماحولیات کا تحفظ


ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 180 میٹربلند ایک چمنی بھی تعمیر کی جارہی ہے جو 115 میٹر کی بلندی تک پہنچ چکی ہے‘ پاکستان کے ماحولیاتی قوانین کے مطابق اس نوعیت کی چمنی کی بلندی 120 میٹر طے کی گئی ہے تاہم عالمی قوانین کی روشنی اور ماحولیات کے تحفظ کی ضرور پیشِ نظراس منصوبے میں چمنی کی بلندی کو 180 میٹر رکھا گیا ہے۔

دھویں کے نکاس کے لیے بنائی گئی چمنی

اس کے علاوہ پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر فرقان کا کہنا تھا کہ کوئلے کے پلانٹ سے پیدا ہونے والے دھویں میں سلفر کے زہریلے اثرات کو ختم کرنے کے لیے اس میں چونا ملایا جائے گا جبکہ 1 ملین درخت اگانے کا منصوبہ بھی جاری ہے تاکہ اس منصوبے کے ماحول پر اثرات کو کم سے کم رکھا جاسکے۔

مقامی آبادی کی بہبود


تھر کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں ہوتا ہے اور یہاں تعلیم‘ صحت اور روزگار کی صورتحال انتہائی مخدو ش ہے‘ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے تھر میں عوامی فلاح کے کئی منصوبے شروع کیے جارہے ہیں جن سے عوام کو ریلیف ملے گا۔

شاہد آفریدی فاؤنڈیشن او ر ’انڈس اسپتال- کراچی‘ کے تعاون سے سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی اسلام کوٹ میں 100 بستروں پر مشتمل اسپتال کی تعمیر کا کام شروع کرچکی ہے۔

بلاک ٹو کے عوام کے لیے ماروی کلینک کے نام سے ایک زچہ بچہ ہیلتھ سنٹر بھی قائم کیا گیا ہے اور 80 فیصد آبادی کو یرقان سے بچاؤ کی ویکسین لگائی گئی ہے اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ دسمبر 2017 تک بلاک ٹو کو یرقان فری کردیا جائے گا۔

تھر میں تعلیم عام کرنے کے لیے ٹی سی ایف کے اشتراک سے اسکول قائم کیے جارہے ہیں جبکہ بلاک ٹو کے علاقے میں موجود سرکاری اسکولوں گود لے کر ان کی حالت بھی سنواری جارہی ہے۔

باہر سے عملہ بلانے کے بجائے مقامی لوگوں کو تربیت دے کر پراجیکٹ میں شامل کیا گیا ہے‘ جن میں ڈمپر ڈرائیور‘ کرین آپریٹر‘ ویلڈنگ اسٹاف‘ مکینکل ورکرز‘ الیکٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔

کان سے نکلنے والے پانی کو استعمال کرنے کے لیے کھارے پانی سے کاشت کا ابتدائی تجربہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں زرعی یونی ورسٹی کو تحقیق کی دعوت دی دی گئی ہے کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائے تاکہ تھر میں قحط کے مسئلے کا سدِباب کیا جاسکے۔

تعمیراتی کام کی ویڈیو دیکھئے



اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں