تازہ ترین

جنون کی حد تک صفائی پسند بنا دینے والی بیماری

آپ نے اپنے ارد گرد بعض افراد کو غیر معمولی رویوں کا حامل پایا ہوگا۔ ایسے افراد تکلیف دہ حد تک صفائی پسند ہوتے ہیں، وہ جب بھی کوئی کام کرتے ہیں تو اس میں اس قدر نفاست اور باریکیوں کا خیال رکھتے ہیں کہ دیگر افراد پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

یہ تمام علامات دراصل ایک بیماری اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض بے چینی کی شدید قسم کا نام ہے۔

اس کا شکار افراد کسی شے کے بارے میں اس قدر سوچتے ہیں کہ وہ لاشعوری طور پر اسے بار بار انجام دیتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی آبادی کا 2 فیصد حصہ اس مرض سے متاثر ہے یعنی ہر 50 میں سے 1 شخص۔

بعض افراد کا ماننا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس بیماری کا شکار ہیں جس کا ثبوت ان کی مختلف عجیب و غریب عادات سے ملتا ہے۔

اس ڈس آرڈر کی تشخیص کرنا کچھ مشکل عمل نہیں۔ اگر آپ اپنے اندر یا اپنے آس پاس موجود کسی شخص میں مندرجہ ذیل علامتیں پائیں تو جان جائیں کہ یہ او سی ڈی ہے جسے مناسب دیکھ بھال سے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت


گندگی کا خوف

او سی ڈی کا شکار افراد کی پہلی علامت یہ ہے کہ یہ جنون کی حد تک صفائی پسند ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے جسم سے نادیدہ جراثیم چمٹ جانے کا خوف ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ معمول کے کام بھی سرانجام نہیں دے پاتے۔

ایسے افراد کسی قسم کے کھیل میں حصہ لینے یا معمولی طور پر بے ترتیب جگہوں پر جانے سے گریز کرتے ہیں

یہ ان افراد سے بھی اپنا تعلق ختم کر سکتے ہیں جو ان کے خیال میں صاف ستھرے نہیں رہتے اور جراثیم منتقل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


غلطی کا خوف

ایک عام انسان اگر کوئی غلطی کرے تو وہ اسے درست کر کے یا بھول کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن او سی ڈی کے مریضوں سے کسی غلطی سے نمٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

کسی کام میں غلطی ہونے کے خوف سے بعض اوقات یہ عجیب و غریب رویے اپنا لیتے ہیں۔ اگر یہ غلطی کر بیٹھیں تو ایک طویل عرصے تک اس کی شرمندگی سے نکل نہیں پاتے۔

مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز


کاموں کو بار بار کرنا

او سی ڈی کے مریض کاموں کو بار بار دہرانے کے عادی بن جاتے ہیں۔

دراصل جب وہ کوئی کام کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہ کام درست طریقے سے نہیں ہوا اور وہ بے چین رہتے ہیں۔ اس بے چینی کے زیر اثر وہ اس کام کو کئی بار دہراتے ہیں حتیٰ کہ انہیں تسلی ہوجائے کہ اب کام درست طریقے سے انجام پاگیا ہے۔

مثال کے طور پر ایسے افراد بار بار ہاتھ دھوئیں گے، کوئی کام کریں گے تو اسے بار بار چیک کریں گے، گھر سے نکلتے ہوئے پاور بٹن وغیرہ کو بند کرنے کے بعد کئی بار چیک کریں گے آیا کہ وہ بند ہوئے ہیں یا نہیں۔


اشیا کو منظم کرنا

او سی ڈی کا شکار افراد کبھی بھی دوسروں کی کی گئی ترتیب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ جب اپنی میز پر کام کرنے کے لیے بیٹھتے تو چیزوں کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہیں اس کے بعد مطمئن ہوتے ہیں۔

یہ وہی علامت ہے جو دنیا بھر کے میڈیا نے صدر ٹرمپ میں بھی پائی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی اشیا کو ہٹا کر دور رکھ دیتے ہیں اور اس کے بعد گفتگو یا کام کا آغاز کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی عجیب و غریب عادت


کاملیت پسندی

او سی ڈی کا شکار افراد نہایت کاملیت پسند ہوجاتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی دوسروں کا کیا ہوا کام پسند نہیں آتا اور وہ اس وقت تک اس سے مطمئن نہیں ہوتے جب تک وہ خود اپنے ہاتھ سے اس کام کو سر انجام نہ دے لیں۔


ضدی

او سی ڈی کے مریض کسی حد تک ضدی بھی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے مختلف نظریات اور ماحول کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ اپنی بات پر سختی سے قائم رہتے ہیں۔


منفی خیالات

ہر دماغی مرض مریض کو منفی خیالات کا حامل بنا دیتا ہے۔ او سی ڈی کا شکار افراد بھی منفی خیالات کا شکار ہوجاتے ہیں جو ان کے اپنے اور آس پاس کے لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں


کسی خیال کا حاوی ہوجانا

او سی ڈی کا مرض، مریض پر کسی ایک خیال کو حاوی کردیتا ہے۔ عموماً کوئی چھوٹی سی بات یا چھوٹا سا واقعہ ان کے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور وہ طویل عرصے تک اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتے۔

یہ واقعہ یا خیال بعض اوقات ناخوشگوار اور بھیانک بھی ہوسکتا ہے جو مریض کی دماغی صحت پر بدترین اثرات مرتب کرتا ہے۔


مشکوک رہنا

او سی ڈی کا مرض اپنے شکار کو مشکوک بنا دیتا ہے اور وہ کسی شخص پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔

بھروسہ نہ کرنے کی عادت بعض اوقات قریبی رشتوں میں بھی دراڑ ڈال دیتی ہے جس کے باعث مریض تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے اور یوں اس کا مرض مزید شدت اختیار کرلیتا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس مرض کا شکار ہیں اور آپ کو ابتدائی مرحلے میں اس کا ادراک ہوگیا ہے تو آپ مندرجہ بالا علامات پر قابو پا کر اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

البتہ اگر کوئی شخص طویل عرصے سے اس مرض کا شکار ہو اور اب اس کے لیے اپنی عادتوں کو تبدیل کرنا ناممکن ہو تو تو ایسے میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

یاد رکھیں دماغی امراض دماغی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اگر ان پر فوری توجہ دے کر ان کا سدباب کیا جائے تو مریض صحت یاب ہوکر ایک معمول کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -