تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

پاناما کیس فیصلہ پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت، نوازشریف کے وکیل کو کل وقفے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت

اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناما کیس فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کو کل وقفےتک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ متفقہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ پاناما کیس فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کررہا ہے، سماعت شروع ہونے پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کچھ نظرثانی درخواستیں 3 رکنی اور کچھ 5 رکنی بنچ کےخلاف ہیں۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواستیں 5 رکنی بنچ اور 3 درخواستیں 3 رکنی بنچ کے خلاف ہیں، نوازشریف کے بچوں نے بھی درخواستیں دائر کی ہیں جبکہ اسحاق ڈار نے بھی لارجر بنچ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی ہے، جس پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ ایک درخواست شیخ رشید نے بھی دائر کی ہے، شیخ رشید کی درخواست میں کیا ہے ابھی علم نہیں۔

وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا ہے کہ میں فیصلے کےقانونی نکات پر دلائل دونگا واقعات پر نہیں ، جولائی کو 5 رکنی بنچ اپنا فیصلہ دے چکا تھا، بعد میں 2 ججزکی بنچ میں شمولیت قانوناً درست نہیں تھی، نوازشریف کو شوکاز نوٹس دیکر وضاحت کا موقع ملنا چاہیے تھا، عدالت نے نواز شریف کو 62 ایکٹ کے تحت نااہل کیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے 20 اپریل کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا،اس کا مطلب ہے کہ 20 اپریل کا فیصلہ تسلیم کیا گیا۔

خواجہ حارث کے دلائل پر پانچ رکنی لارجر بینچ کے سربراہ خواجہ آصف نے کہا کہ3 رکنی بنچ نے ہی اپنا فیصلہ دیا ہے، آپ عملدرآمد بنچ کودوسرے بنچ سےمکس کررہےہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد معاملہ 3 رکنی بنچ کےسامنے ہی آیا، رپورٹ آنے کے بعد عملدرآمد بنچ ختم ہوگیا تھا۔ دونوں فیصلوں میں نوازشریف کو نااہل کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ اٹھائیس جولائی کو پانچ ججز نے اپنا فیصلہ دیا، تینوں میں کسی جج نے نہیں کہا کہ اقلیتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں، بیس اپریل کو نااہل کرنے والوں نے اٹھائیس جولائی کو کچھ نہیں کہا، اختلاف کرنے والے جج بھی فیصلوں پر دستخط کرتے ہیں، ایسی عدالتی مثالیں موجود ہیں۔

نواز شریف کے وکیل نے دلائل میں کہا سپریم کورٹ معاملے میں شکایت کنندہ بن چکی ہے،عدالت نے نیب کو ریفرنس کا حکم دیا، فیصلہ ہونا چاہئے تھا کہ نیب قانون کے مطابق کارروائی کرے، خلاف فیصلہ دینے والے جج کو نگران بنا دیا گیا ، ایسی مثال دنیا میں نہیں ملتی، عدالت نے جے آئی ٹی ارکان کی فیصلے میں تعریف بھی کی۔

عدالت نے کہا جے آئی ٹی ارکان کی تعریف ضرور کی لیکن ٹرائل کورٹ ان کی اسکروٹنی ہوگی، ٹرائل کورٹ آزادی سے جو چاہے فیصلہ کرے گی، ٹرائل کورٹ میں آپ جے آئی ٹی ارکان پر جرح کرسکتے ہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہمیشہ اکثریت کےفیصلوں پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں، آپ خود ایسے مقدمات میں عدالت کی معاونت کرچکےہیں، آئینی ترامیم کیس میں بھی تمام ججز نے الگ فیصلہ لکھا تھا، حتمی فیصلے پر دستخط سب نے کیے تھے، تلور کے شکار سے متعلق فیصلے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، 28 جولائی کو 2 ججز نے فیصلے میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا، فیصلے میں کوئی نیا کام نہیں ہوا، یہ عدالت کا معمول ہے۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ2 ججز حتمی فیصلے پر دستخط کرچکے تھے،2 ججز نے نااہلی الگ معاملے پر کی، 3 نے الگ معاملے پر، 5 رکنی بنچ فیصلہ نہیں کرسکتا تھا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آئینی ترامیم کیس میں میرے فیصلے پر 8 ججز نے دستخط کیے، 28 جولائی کو پہلے 3 رکنی بنچ کا فیصلہ سنایا گیا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ 28 جولائی کے فیصلے میں اکثریت کا ذکر نہیں، جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 2ججز کے فیصلے پر بھی کیس مکمل نہیں ہوا تھا، سماعت کو ایک ہی حتمی آرڈر کے ساتھ مکمل ہونا تھا، ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا تھا، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ 3ججوں نےفیصلہ تبدیل کیاہوتاتوعدالتی حکم تبدیل ہوجاتا۔

نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر 3 میں سے2 جج درخواستیں خارج کردیتے تو فیصلہ کیاہوتا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایسی صورت میں تین دو کی اکثریت سےفیصلہ ہوجاتا، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے سوال کیا کہ کیا 3 ججز 2 ججز کو بینچ سے نکال سکتے تھے؟ تو خواجہ حارث نے کہا کہ 2جج حتمی فیصلہ دیکر خود ہی بینچ سے نکل گئے، جسٹس آصف سعید نے مزید کہا کہ 3 ججز نے کہاں لکھا 2ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلاگیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ الگ سے 5رکنی بینچ قائم ہوتاتومعاملہ الگ ہوتا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا آپ کہتے ہیں 3ججز کا فیصلہ اختلافی ہوتا تو نااہلی نہ ہوتی؟ حتمی فیصلہ پھر بھی 5ججوں کا ہی ہونا تھا، مزید ایک جج بھی نااہل کردیتا تو تین دو سے فیصلہ ہوتا، 20 اپریل کے فیصلے سے کیس مکمل نہیں ہوا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ 2 ججز کی نااہلی کو 3 ججز نے آج بھی تسلیم نہیں کیا، تینوں ججوں نے نااہلی کیلئے اپنا الگ فیصلہ دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دو ججز کا فیصلہ اب بھی برقرار ہے، دونوں ججوں کا فیصلہ ردی کی نذر نہیں ہوا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ دو جج 20 اپریل کے فیصلے کے بعد کارروائی کا حصہ ہی نہیں تھے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آبزرویشن کامقصدمزیدتہہ تک جاناہوتاہے، عدالت میں خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جنہوں نے کیس نہیں سنا تھا، انہیں نظرثانی پر کیا دلائل دوں۔

جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی بات مان کرہی لارجربینچ تشکیل دیاگیا ہے، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 2 ججز کو 3ججز سے اختلاف ہے تو نظرثانی3ججز کو سننی چاہیے، جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ اختلاف جے آئی ٹی بنانے پر تھا نااہلی پر نہیں،جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے3ججز کو قائل کرنا ہے تو انہیں کرلیں، 3 ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہیں فرق نہیں پڑتا۔

نظرثانی درخواستوں کی سماعت میں آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد ایف زیڈ ای کے معاملے پر دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ کیپٹل ايف زيڈای کامعاملہ عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا تھا، جنہوں نےایف زیڈ ای پر سماعت نہیں کی انہوں نے دستخط کیے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اقلیتی فیصلہ تقاریر میں تضاد اور ذرائع نہ بتانے پر تھا، اکثریت فیصلے میں مختلف بنیاد پر نااہل کیاگیا، فیصلے میں آبزرویشن نیب قانون اورٹرائل کیلئے تھیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سوال یہ ہے 2الگ وجوہات پر62ون ایف لگایاجاسکتاہے؟ 62 ون ایف کےتحت نااہلی تاحیات ہے؟ جس کے جواب میں جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ فیصلےمیں یہ کہاں لکھاہےکہ نااہلی تاحیات ہوگی، تاحیات نااہلی کےمعاملےپرآپ کی معاونت درکارہوگی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ تنخواہ نہ وصول یاظاہرنہ کرنےپر62ون ایف کیسےلگ سکتاہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نوازشریف ایف زیدای بورڈآف ڈائریکٹرکےچیئرمین تھے،خواجہ حارث نے مزید کہا کہ اثاثہ وہ ہوتا ہے، جو مالک کےقبضےمیں ہو، ڈکشنری میں تنخواہ کی کئی تعریفیں موجود ہیں، عدالت نے وہی تعریف کیوں لی جو نوازشریف کے خلاف جاتی تھی،خواجہ حارث

جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلےمیں محتاط زبان استعمال کی گئی، ہم نہیں چاہتے ٹرائل کورٹ پر عدالتی حکم اثر ہو۔

سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے خواجہ حارث کو کل وقفے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جمعے کے بعد یہ بینچ شاید دستیاب نہ ہو، جمعےتک یہ سماعت مکمل کرنی ہے۔

یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنےجسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں لارجربینچ تشکیل دیا تھا، جسٹس گلزار، جسٹس اعجاز افضل،جسٹس عظمت سعیداورجسٹس اعجازالحسن بینچ کا حصہ ہوں گے۔

خیال رہے کہ تین رکنی بینچ نے شریف فیملی کےوکیل کی درخواست پر لارجر بنچ کی سفارش کی تھی جبکہ پاناماپیپرز سے متعلق درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں اسی پانچ رکنی بینچ نے کی تھی۔


پاناما کیس نظرثانی: شریف خاندان کی سماعت مؤخرکرنے کی اپیل


واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے بعد ان کے بچوں نے بھی سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے فیصلے پرنظرثانی کی درخواست پرسماعت مؤخر کرنے کی اپیل کی تھی اورسماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دینےکی استدعا کی تھی۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -