تازہ ترین

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کیخلاف ریفرنس دائر

راولپنڈی: نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے...

مچھلی پر ’سواری‘ کرتا اور سائیکل چلاتا مغل بادشاہ

آپ نے مغل بادشاہوں کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہوگا۔ ان کے مزاج، ان کی عادات، ان کے طرز حکمرانی اور طرز زندگی کے بارے میں ہزاروں کی تعداد میں دستاویز موجود ہیں جو ان کی زندگی کے ایک پہلو پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔

لیکن آج ہم جن مغل بادشاہوں کا آپ سے تعارف کروانے جارہے ہیں، وہ آپ کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔ یا یوں کہہ لیجیئے، بادشاہ تو وہی ہوں گے جن کے بارے میں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں، لیکن جس انداز میں آپ انہیں دیکھیں گے وہ بہت انوکھا اور اچھنبے میں ڈال دینے والا ہوگا۔

کیا آپ نے کبھی کسی مغل بادشاہ کو شاہی لباس میں، تمام سازو سامان اور زیورات سے آراستہ سائیکل چلاتے سنا ہے؟ یا آپ نے سنا ہے کہ مغل بادشاہ پتنگ بازی کر رہے ہوں، لیکن ان کے ہاتھ میں موجود ڈور کے دوسرے سرے پر پتنگ کے بجائے کوئی زندہ جیتی جاگتی مچھلی موجود ہو جو ہوا میں اڑ رہی ہو؟

یہ سب سننے میں تخیلاتی اور تصوراتی لگے گا، اور اگر یہ سب کسی تصویر کی صورت آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو آپ کو بھی اسی تصوراتی دنیا میں کھینچ کر لے جائے گا۔

لیکن ذرا رکیے، اس تصوراتی دنیا میں جانے سے پہلے اسے تخلیق کرنے والے سے ملیے۔

اپنی رنگ برنگی تصوراتی دنیا، اس میں موجود بادشاہوں، ملکاؤں، پھلوں سے لدے درخت اور سبزے کو کینوس پر پیش کرنے والے یہ فنکار محمد عاطف خان ہیں۔

ماضی کا قصہ بن جانے والے مغل دور کی، عصر حاضر کی ایجادات و خیالات کے ساتھ آمیزش کرنے والے عاطف خان کا خیال ہے کہ ان کے یہ فن پارے اس نظریے کی نفی کرتی ہیں کہ نئے دور سے مطابقت کرنے کے لیے پرانی اشیا کو ختم کر دیا جائے۔

یہی نہیں بلکہ یہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہیں کہ دونوں وقت نہ صرف ایک ساتھ پا بہ سفر ہو سکتے ہیں، بلکہ اگر انہیں خوبصورتی سے برتا جائے تو یہ بے ڈھب بھی معلوم نہیں ہوں گے۔

تخیلاتی دنیا میں رہنے والا مصور

صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیدا ہونے والے عاطف خان نے پاکستان کے مشہور زمانہ نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی۔ وہ اب تک پاکستان کے مختلف شہروں اور برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، اردن، متحدہ عرب امارات اور بھارت میں اپنی مصوری کی کامیاب نمائشیں منعقد کر چکے ہیں۔

عاطف خان اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ایش برگ برسری ایکسچینج پروگرام میں بھی منتخب کیے گئے جبکہ اردن، ویلز، لندن اور گلاسکو میں آرٹ کے مختلف پروگرامز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔

سنہ 2007 میں انہیں کامن ویلتھ آرٹس اینڈ کرافٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فی الحال وہ اپنی مادر علمی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

فن و مصوری کے میدان میں عاطف خان چینی فنکار آئی وی وی اور برطانوی فنکار انیش کپور سے بے حد متاثر ہیں۔ پاکستانی فنکاروں میں انہیں عمران قریشی کا کام پسند ہے۔

مغل دور اور تصاویر کی ری سائیکلنگ

عاطف خان کہتے ہیں، ’مغل دور (یا یوں کہہ لیجیئے کہ کسی بھی قدیم دور) کو اپنی مصوری میں پیش کرنے سے میرا کینوس وقت کی قید سے ماورا ہوجاتا ہے۔ یہ دیکھنے والوں کو بھی زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے ایک تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے‘۔

وہ مانتے ہیں کہ ان فن پاروں کو دیکھنے والوں کا ایک تصوراتی دنیا میں قدم رکھنا لازمی ہے، ’کیونکہ اگر وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے مغل دور میں پہنچ بھی گئے، تب بھی وہ مغلوں کو یہ سب کرتے نہیں دیکھ سکتے جو ان تصاویر میں دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ درحقیقت اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں‘۔

خان کہتے ہیں کہ یہ مناظر تصوراتی ہونے کے ساتھ ان میں موجود کردار بھی فرضی ہیں۔ ’گو یہ پرانے دور کے حقیقی بادشاہوں سے ماخوذ تو ضرور ہیں، مگر فرضی ہیں‘۔

ان کی تخلیق کردہ تصاویر میں صرف مغل بادشاہ ہی نہیں، بلکہ ملکہ برطانیہ الزبتھ کا عکس بھی ملتا ہے جبکہ ایک اور جگہ ایک ملکہ میں آپ ملکہ نور جہاں سے مشابہت دیکھ سکتے ہیں۔

عاطف خان اپنے تخلیق کردہ فن پاروں کو مختلف تصاویر کی ’ری سائیکلنگ‘ کا نام دیتے ہیں کیونکہ ہر فن پارے میں وہ مختلف تصاویر کے مختلف پہلوؤں کو شامل کر لیتے ہیں۔

انہوں نے مغل دور کی وہ تصاویر جو کسی اور نے بنائی تھیں، پاکستانی ٹرک آرٹ، یہاں تک کہ کتابوں، پوسٹرز اور کرنسی نوٹوں تک پر چھپے نقوش کی اپنی تصاویر میں آمیزش کردی۔ اب خان کے مطابق یہ فن پارے نئے سرے سے تخلیق ہو کر نئے مطالب وا کرتے ہیں۔

امریکا کی ایک آرٹ کی نقاد لیزا پول مین نے اپنے ایک مضمون میں عاطف خان کے فن کے بارے میں لکھا، ’برصغیر کے مغل بادشاہوں کی رنگ برنگی تصویر کشی فنکار کے دل کی رنگین دنیا کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کا فن ماضی کے کرداروں سے ابھرا ہے‘۔

لاشعور کی رنگین دنیا

خان کی تخلیق کردہ دنیا انوکھی، غیر معمولی یا کسی حد تک عجیب و غریب اور منفرد تو ضرور ہے مگر جمالیاتی اعتبار سے نہایت خوبصورت ہے۔

وہ ایک تخیلاتی شہر میں رہتے ہیں جو مغلوں کے دور جیسا ہے اور نہایت سر سبز ہے۔ ان کے فن پاروں میں گھنے جنگلات، سر سبز باغات، رنگ برنگی بھول بھلیاں، خوشنما پرندے، رنگین مچھلیاں اور خوبصورت بادل نظر آتے ہیں۔

دراصل خان کا یہ شہر اس تحریک سے ابھرا ہے جو ان کے لاشعور نے ان کی قوت تخیل کو دی۔ بعض غیر ملکی ناقدین فن نے ان کے آرٹ کو سریئل ازم آرٹ قرار دیا۔ آرٹ کی یہ قسم 1920 کی اوائل میں اس وقت سامنے آئی جب فن و ادب میں لاشعور کو شعور میں لا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی تحریک چلی۔

اس تحریک کے تحت جو آرٹ سامنے آیا اس میں زیادہ تر تحیر العقل (عموماً لاشعور کی پیدا کردہ) دو متضاد چیزوں کو ملا کر پیش کیا گیا۔

لاشعور پر کام کرنے والی ایک امریکی پروفیسر ڈاکٹر میگی این بوورز کہتی ہیں، ’سریئل ازم اور جادو یا جادوئی حقیقت دو مختلف چیزیں ہیں۔ سریئل ازم کا مادی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق لاشعور، تصور اور تخیل سے ہے اور یہ انسانی نفسیات اور کسی انسان کے ’لاشعور کی زندگی‘ کو بیان کرتی ہے۔

گویا عاطف خان کے لاشعور میں بسا شہر، ماضی اور حال کے تضاد کے ساتھ ایک دنگ کردینے والی صورت میں سامنے آتا ہے۔

آئیے ہم بھی ان کے ساتھ ان کے لاشعور کے شہر میں قدم رکھتے ہیں۔

لینڈ اسکیپ آف دا ہارٹ نامی پینٹنگ سیریز میں ایک بادشاہ اپنے شاہی لباس میں ملبوس دل پر سوار ہو کر کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جس تالاب میں اس بادشاہ کی کشتی (دل) تیر رہی ہے وہ دراصل خون ہے۔

ایک اورفن پارے ڈیپ ڈریم میں شیش محل کی طرز پر ایک باغ دکھایا گیا ہے جس میں بادشاہ تیر اندازی کر رہا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ شیش محل کی مخصوص آئینہ کاری کے سبب باشاہ کے تیر کی زد میں خود اس کا اپنا ہی عکس ہے۔

منفرد فنکار کی ایک اور پینٹنگ میں ایک پل پر ایک رقاصہ محو رقص ہے اور ذرا سے فاصلے پر بادشاہ ایک جدید کیمرہ ہاتھ میں لیے اس کی تصویر کھینچ رہا ہے۔ حال اور ماضی کے تضاد کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی۔۔

ایک اور تصویر میں مغل بادشاہ پا بہ سفر ہے۔ اس تصویر کی خاص بات یہ ہے کہ بادشاہ کا پورا سفر اسی ایک فن پارے میں بیان ہوجاتا ہے۔

اس کا پیدل، سائیکل پر یا دل نما کشتی پر سفر کرنا، جبکہ اسی فن پارے میں آس پاس جنگلات، پہاڑ، ان میں موجود جانور، پانی اور آبی حیات، حتیٰ کہ آسمان پر اڑتے پرندے بھی نہایت ترتیب اور خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔

ایک اور خوبصورت فن پارے میں مغل بادشاہ شکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اسی فن پارے میں آپ کو جدید لاہور کا پورا نقشہ نظر آتا ہے جہاں پر مغل بادشاہ اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر محو سفر ہے۔

کئی فن پاروں میں بادشاہ مچھلی پر سواری کرتا ہوا، یا اسے پتنگ بنا کر ہوا میں اڑاتا ہوا دکھائی دے گا۔

جن پینٹنگز میں عاطف خان نے تاریخی عمارتوں کو پیش کیا ہے یا علامتی طور پر مغلوں سے تعلق رکھنے والے باغات اور محل دکھائے ہیں، ان فن پاروں میں انہوں نے مغل دور کے فن تعمیر اور روایتی بصری آرٹ کو یکجا کردیا ہے۔

ان کے فن پاروں کی یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں اور ایک فن پارہ ایک خیال کے مختلف مراحل، اور کئی جہتوں کو بیان کرتا ہے۔

شہر در شہر

صرف ایک یہ مغل تصویر کشی ہی نہیں، عاطف خان کی انفرادیت کا ایک اور ثبوت ان کا وہ شہر ہے جو لاہور کے بیچوں بیچ کبوتروں کے لیے قائم ہے۔

لاہور کے استنبول چوک پر نصب یہ چھوٹا سا شہر بلاشبہ کبوتروں کا شہر کہلایا جاسکتا ہے، اگر کبوتر اسے اپنا گھر سمجھ کر قبول کریں۔

سنہ 2015 میں کمشنر لاہور، لاہور بنالے فاؤنڈیشن، اور پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی لاہور کی جانب سے اس چوک کی آرائش کے لیے تخلیقی آئیڈیاز طلب کیے گئے تھے۔ عاطف خان نے اس میں اپنا آئیڈیا ’شہر کے اندر شہر‘ بھجوایا جسے پسندیدگی کا درجہ دیتے ہوئے قبول کرلیا گیا، اور عاطف خان نے اس پر کام شروع کردیا۔

لاہور کا یہ استنبول چوک قدیم ثقافت و تاریخ کا مظہر ہے۔ اس چوک کے اطراف میں لاہور میوزیم، نیشنل کالج آف آرٹس، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنگٹن مارکیٹ، ٹاؤن ہال، جبکہ پاکستانی فن و ادب پر اہم اثرات مرتب کرنے والے شاعروں، مفکروں اور مصنفوں کی مادر علمی گورنمنٹ کالج واقع ہے۔

اس چوک پر جنگوں کی 3 یادگاریں بھی نصب ہیں۔

اس چوک کی ایک اور خاص بات یہاں کبوتروں کے وہ غول ہیں جو روزانہ دانہ پانی چگنے کے لیے یہاں اترتے ہیں۔ بقول عاطف خان، یہ لاہوریوں کا اظہار محبت ہے جو وہ کبوتروں کے لیے دانہ اور پانی رکھ کر کرتے ہیں۔

عاطف خان کا کہنا ہے کہ جب انہیں اس چوک کی سجاوٹ کے بارے میں علم ہوا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تضاد آئے، جنگوں کی یادگاریں اور امن کی علامت کبوتر، تاریخی اور جدید عمارتیں۔ گویا یہ چوک حال اور ماضی، اور جنگ اور امن کا دوراہا ہے۔

چنانچہ ان کبوتروں کے لیے ہی انہوں نے ایک علامتی شہر بنانا شروع کردیا۔

جب ان سے کمشنر لاہور نے پوچھا، ’کیا آپ کو لگتا ہے کبوتر ان گھروں کو پسند کر کے یہاں رہیں گے؟‘ تو عاطف خان کا جواب تھا، ’ہرگز نہیں! اگر میں ان کبوتروں کی جگہ ہوتا تو شہر سے دور اپنے پرسکون گھونسلوں کو چھوڑ کر کبھی شہر کے بیچوں بیچ، دھویں، آلودگی اور ٹریفک کے شور میں رہنا پسند نہ کرتا‘۔

نیشنل کالج آف آرٹ میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے عاطف خان کہتے ہیں کہ وہ اپنے طالب علموں سے بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ خان فن مصوری میں نئی آنے والی تکنیکوں اور آلات کے استعمال کو برا نہیں سمجھتے۔ بقول ان کے، ان جدید تکنیکوں کے ذریعہ اپنے فن میں نئی جہت پیدا کی جاسکتی ہے۔

نئے مصوروں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’نئے مصوروں کو صبر اور محنت سے کام لینا ہوگا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی منزل پر پہنچنے کے لیے سخت محنت کا طویل راستہ اختیار کرنا ہی پڑتا ہے‘۔

Comments

- Advertisement -