تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

وزیراعظم شہباز شریف آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے اہم ملاقات کریں گے

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف اور چیف جسٹس سپریم...

برما میں کوئی مسلمان ’اسلامی نام ‘ نہیں رکھ سکتا

رنگون: میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر قانون کے تحت اسلامی نام رکھنے پر پابندی عائد ہے‘ مسلمان دو نام رکھنے پر مجبور ہیں‘ حالیہ فسادات میں سوا تین لاکھ افراد ہجرت کرگئے ہیں۔

اے آروائی نیوز کے اینکر پرسن اقرار الحسن ان دنوں برما میں موجود ہیں اور وہاں کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ یہاں کے قوانین کے تحت مسلمانوں کے اسلامی نام رکھنے پر پابندی عائد ہے ‘ جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔

اقرارالحسن کا کہنا ہے کہ یہاں پر بسنےوالے مسلمان مجبور ہیں کہ وہ اپنے دونام رکھیں‘ ایک نام جو ان کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرتا ہے اورعموماً ان کے اہلِ خانہ اور ارد گرد کے لوگ اسی نام سے پکارتے ہیں۔ دوسرا نام سرکاری دستاویزات کے لیے رکھا جاتا ہے جس پر ان کا شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بنتے ہیں ۔

برمی حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم پر ساری دنیا تشویش میں مبتلا ہے ‘ سنہ 2012 سے جاری ان فسادات میں اب تک ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد یہاں سے نقل مکانی کرگئے ہیں۔

حکومت نے ایکشن نہ لیا تو بدھا روہنگیا مسلمانوں کی مدد کریں گے*

گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو ایک بار پھر فسادات کا نیا سلسلہ زور پکڑ گیا‘ برمی فوج کا موقف تھا کہ وہ روہنگیا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے تاہم اس کارروائی میں گاؤں کے گاؤں نذر آتش کردیے گئے۔

اب تک فسادات میں 400 سے زائد افراد قتل کیے جاچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق تین لاکھ سے زائد افراد نے ہجرت کی ہے‘ بنگلہ دیش اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے جہاں اب تک ساڑھے سات لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان پہنچ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ سنہ 2011 میں میانمار میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوئی تھی اور امید ہوچلی تھی کہ خطے میں طویل عرصے سے جاری اس کشمکش کا خاتمہ ہوسکے گا‘ تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

گزشتہ روز بدھ مت کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ نے اپنے بیان میں کہا کہ آج اگر گوتم بدھ موجود ہوتے تو وہ روہنگیا مسلمانوں کا ساتھ دیتے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -