تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

ملزم یامجرم- کسی کی زندگی داؤ پر ہے

کسی بھی جرم کی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کرنے کے لیے جیوری کو انتہائی باریک بینی سے عدالتی کارروائی کا جائزہ لینا ہوتا ہے ‘ خصوصاً جب مقدمہ قتل کا ہو‘ کوئی شخص مارا جاچکا ہے اور کسی کی زندگی داؤ پر لگی ہو تو ایسے میں جیوری کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے‘ اسی صورتحال پر مشتمل اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم‘ آرٹس کونسل میں پیش کیا جارہا ہے۔

گزشتہ رات کراچی کے آرٹس کونسل آف پاکستان میں گولڈن بیئر ایوار ڈ یافتہ امریکی فلم’’ ٹویلو اینگری مین‘‘  پر مبنی اسٹیج ڈرامہ ’ملزم یامجرم پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ’اسٹیج نوماد‘ کی پیشکش ہے اور اس کی ہدایت کاری کے فرائض میثم نظر نقوی نے انجام دیے ہیں۔ ڈرامے کو انگلش فلم سے اردو قالب میں ڈھالنے کا مشکل کام وسعت اللہ خاں نے انجام دیا ہے۔

ڈرامے کی کاسٹ میں کلثوم فاطمی‘ عثمان شیخ‘ یوگیشور کاریرا‘ شاہ حسن‘ علی حیدر‘ مجتبیٰ رضوی‘ ابراہیم شاہ‘ راؤ جمال‘ منیب بیگ‘ ماہا رحمن‘ فراز علی اور جبران ملک شامل ہیں۔

ڈرامے کی کہانی‘ قتل کے مقدمے میں ملوث اٹھارہ سال عمر کے ایک نوجوان کے گرد گھومتی ہے‘ جسے اس کے باپ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ عدالت میں ہونے والی جرح اور گواہوں کے بیان اسے مجرم قرار دیتے ہیں اور وکیلِ صفائی اس نوجوان کی حمایت میں عدالت کو قائل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد جج جیوری کے ارکان کو حکم دیتا ہے کہ وہ باریک بینی سے مقدمے کی کارروائی اور دیگر تمام نکات جائزہ لے کر طے کرلیں کہ آیا یہ لڑکا قصور وار ہے کہ نہیں۔

ڈرامے کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے ۔ جیوری کے بارہ ارکان ایک کمرے میں براجمان ہیں اور پہلی ووٹنگ میں ۱۱ ارکان لڑکے کو قصوروار سمجھتے ہیں جبکہ ایک رکن کا خیال ہے کہ انہیں اس مقدمے پر مزید غور وفکر کرنا چاہئے۔

یہی سے ڈرامے کی بُنت شروع ہوتی ہے اور یکے بعد دیگرے اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیوری کے ارکان کی شکل میں مقامی سطح پر پائے جانے والے ہر قسم کے رویے کو یکجا کردیا ہے جس سے اس سنجیدہ موضوع پر بننے والے ڈرامے میں مزاح کا عنصر شامل ہوا اورناظرین ایک لحظے کو بھی بوریت کا شکار نہیں ہوئے۔


آغا حشر کا ڈرامہ – یہودی کی لڑکی


ڈرامے میں یہ اداکار ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں‘ پھبتیاں کستے ہیں ‘ ایک دوسرے پر ذاتی حملے بھی کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ مقامات پر اپنی رائے کے خلاف بات کرنے والے کو مارنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے‘ کوئی بھی شخص اپنے موقف کی مخالفت میں ایک لفظ سننا نہیں چاہتااور اگر کچھ لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کس قدر دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قتل کے اس مقدمے کے ایک ایک نکتے کو ڈرامے میں زیرِ بحث لایا جاتا ہے یہاں تک کہ جیوری کے ارکان آپس میں تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے موقف کی حمایت میں اداکاروں نے اس قدر عمدگی سے ڈائیلاگ ادا کیےہیں کہ ناظرین کا ذہن ان کے ساتھ بندھ کر رہ گیا‘ اور ارکان ہی کی طرح ناظرین بھی اس کشمکش میں مبتلا ہوگئے کہ آیا یہ لڑکا واقعی مجرم ہے؟ یا کچھ اور ہےجس کی پردہ داری کی جارہی ہے۔

ایک ڈائیلاگ ڈرامے میں ایسا ہے جہاں وسعت اللہ خاں جیسے ماہر بھی غلطی کرگئے‘ جیوری کا ایک رکن ملزم کی پرورش پر نکتۂ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’اسے تو انگریزی بھی ٹھیک سے نہیں آتی‘‘۔ حالانکہ ڈرامے کا پسِ منظر پاکستانی رکھا گیا ہے۔ اسٹیج پر قائد اعظم کی تصویر موجود ہے اور وہ لڑکا جس نے ساری عمر زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم علاقے میں گزاری‘ وہاں انگریزی جاننے یا بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سیٹ کا ڈیزائن بہت زیادہ متاثر کن نہیں تھا اور اس میں بہت حد تک بہتری کی گنجائش تھی۔ بعض مقامات پر پسِ پردہ موسیقی کی بے پناہ ضرورت محسوس ہوئی تاہم اداکاروں کے لہجے کے اتارچڑھاؤ نے اس کمی پر کسی حد تک پردہ ڈالے رکھا۔

ڈرامے کے اختتام پر جیوری کے ارکان کس نتیجے پر پہنچے اس کے لیے تو آپ کو آرٹس کونسل کا رخ کرنا پڑے گا جہاں یہ شو 30 جولائی تک جاری ہے‘ تاہم میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ سنجیدہ موضوعات پر بننے والے ایسے اسٹیج شو شہر قائد میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں اور انہیں دیکھنا یقیناً ایک سود مند تفریح ہے۔

مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی عمدہ کاوش ہے اور اسٹیج ڈرامہ جو کہ ہمارے معاشرے میں متروک شدہ صنف سمجھاجانے لگا تھا‘ ایک بار پھر اپنے قدموں پر سنبھل رہا ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اسی نوعیت کے ڈرامے اس کے قدموں کو توانا کرتے رہیں گے۔


اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں