لاس ویگاس: امریکی شہرلاس ویگاس میں کیسینو کے قریب کنسرٹ میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 59 ہوگئی ہے جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لاس ویگاس میں ایک میوزک کنسرٹ پر فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 58 ہوگئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 515 کے قریب پہنچ گئی ہے ۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ قریبی ہوٹل کی 32 ویں منزل کے کمرے میں رہائش پذیر شخص نے میوزک کنسرٹ پر اس وقت کی جب 20 ہزار سے زائد افراد موسیقی کی تقریب میں شریک تھے۔
لاس ویگاس میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق فوری طور فپر ہوٹل سے فائرنگ کرنے والے کمرے تک 10 پولیس اہلکاروں نے چھاپا مارا تاہم اس وقت تک ملزم نے خود کو گولی مار کر ہلاک کرلیا تھا جب کی اس کے کمرے سے دس گنیں برآمد کرلی گئیں۔
میٹروپولیٹن ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کی شناخت 64 سالہ اسٹیفن پیڈوک کے نام سے ہوئی ہے جو نیویڈیا کا رہنے والا ہے اور ہوٹل کے کمرے میں تنہا قیام پذیر تھا تاہم اس کی ایک دوست مفرور ہے جس کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس ذرا ئع کے مطابق ملزم کا کسی بھی انتہا پسند جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کے سیاسی و مذہبی عزائم رکھتا ہے اسی طرح ملزم کا کوئی کریمنل ریکارڈ بھی نہیں ہے۔
میوزک کنسرٹ میں فائرنگ کرکے 58 کو ہلاک کرنے والا اسٹیفن پیڈوک کون ہے؟
پولیس نے ملزم کے بھائی کو حراست میں لے کر ضروری معلومات حاصل کرلی ہیں اور اس کے دوست، ہمسائیوں اور شریک ملازمت افراد سے تحقیقات کا عمل جارہی ہے تاہم اب تک کسی قسم کوئی لنک نہیں مل سکا ہے۔
دوسری جانب انتہا پسند جماعت داعش نے میوزک کنسرٹ پر فائرنگ کی ذمہ داری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم نے اسلام قبول کرکے داعش میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور داعش کے فلسفہ سے متاثر ہو کر ہی امریکیوں کو نشانہ بنیا ہے۔
تاہم ایف آئی اے نے داعش کا دعوی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم اسٹیفن کے کسی بھی مذہبی اور انتہا پسند جماعت میں شمولیت کے امکانات صفر ہیں اور داعش میں شمولیت کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے داعش کا دعوی بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
عینی شاہد برائن ہیفنر نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے انٹرویو میں کہا کہ ’ اس نے ایک ساتھ بہت ساری گولیا ں چلنے کی آواز سنی اور جب وہ نیچے گیا تو عجیب افراتفری کا عالم تھاا ور لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کررہے تھے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔