تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

پاؤں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والی عام مشکلات اور ان کا حل

موسم گرما ایسا سیزن ہے جس میں ہمارے جسم کے کئی حصے دھوپ کی براہ راست زد میں ہوتے ہیں کیونکہ گرمی کے باعث ہم انہیں ڈھکنے سے گریز کرتے ہیں۔

انہی میں ہمارے پاؤں بھی شامل ہیں جو موسم سرما میں تو بند جوتوں اور موزوں کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں تاہم گرمیوں میں ان کی حفاظت کرنی ذرا مشکل ہوجاتی ہے جو مستقل گرد و غبار اور سورج کی تیز روشنی کی زد میں رہتے ہیں۔

مستقل کھلی ہوا میں رہنے کی صورت میں ہمارے پاؤں اکثر اوقات چند مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور آج ہم انہی سے بچنے کی احتیاط اور علاج بتا رہے ہیں۔


جوتوں کا انتخاب

ایک عام خیال ہے کہ اونچی ایڑھی کے جوتے پیروں کو بے حد نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا ان کی جگہ چپٹے یا فلیٹ جوتے اور چپلیں استعمال کرنے چاہئیں۔

مزید پڑھیں: جتنی اونچی ہیل، اتنا امیر شہر

لیکن ماہرین طب کا کہنا ہے کہ بالکل ہموار سطح کے فلیٹ جوتے بھی پاؤں کو اتنا ہی نقصان پہنچاتے ہیں جتنا اونچی ایڑھی کے جوتے۔

دراصل بہت زیاہ فلیٹ جوتے بھی پاؤں پر دباؤ ڈالتے ہیں جس کے باعث انہیں اپنے کام انجام دینے میں زیادہ قوت صرف کرنی پڑتی ہے او یوں ہم پاؤں کی تکلیف کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

جوتوں کا انتخاب کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ جوتوں میں 2 سے 3 سینٹی میٹر کی ہیل ضرور ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان رکھیں کہ وہ ہیل پاؤں کے لیے آرام دہ ہو اور انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے کا سبب نہ بنے۔


پھٹی ایڑھیاں

پاؤں کی ایڑھیاں پھٹ جانا ایک عام مسئلہ ہے جو نہ صرف سردیوں بلکہ گرمیوں میں بھی پیش آسکتا ہے۔

ایڑھیاں خشک ہو کر اس وقت پھٹتی ہیں جب ایڑھیوں کے ٹشو خشک ہوجاتے ہیں۔

ایسا گرمیوں میں کھلے جوتے پہنے کے باعث گرد و غبار پڑنے اور ایڑھیوں پر میل جم جانے کے باعث ہوتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ بھی یہ مسئلہ پیش آسکتا ہے۔

پھٹی ایڑھیوں کی طرف اگر فوری طور پر توجہ نہ دی جائے تو یہ سخت اور کھردری ہوجاتی ہیں جس کے باعث چلنے پھرنے اور جوتے پہننے میں نہایت تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان سے خون بھی رسنے لگتا ہے۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پھٹی ایڑھیوں سے نجات پانے کے لیے ایسی کریم استعمال کریں جس میں یوریا شامل ہو۔ یوریا جسم کی چکنائی میں اضافہ کر کے اس کی خشکی اور الرجی کو کم کرتا ہے اور جلد کو ہموار بناتا ہے۔


ناخن کا گوشت کے اندر بڑھنا

پاؤں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والی ایک اور مشکل ناخنوں کا گوشت کے اندر بڑھنا ہے۔ یہ عمل اس انگلی کی سوجن اور تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات مذکورہ انگلی سے خون بھی نکل آتا ہے اور تکلیف شدید ہونے کی صورت میں انگلی انفیکشن کا شکار ہوجاتی ہے۔

اس کی عام وجوہات میں تنگ جوتے پہننا، ناقص طرح سے ناخن کاٹنا، یا پاؤں میں پسینہ آنا شامل ہے تاہم بعض افراد کو پیدائشی طور پر بھی یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے۔

اس مسئلے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مذکورہ انگلی کے ناخن کا خیال رکھا جائے اور جیسے ہی یہ ایک حد سے بڑھ جائے اسے فوراً کاٹ دیا جائے۔

ناخن کو بہت زیادہ اندر تک نہ کاٹا جائے۔ اس سے ناخن کی افزائش کی جگہ پر جلد کو بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔


فنگل نیل

پاؤں کے ناخنوں کا پیلا، سخت اور بدبودار ہوجانا انفیکشن کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر کھلاڑیوں کے پاؤں میں ہوجاتی ہے۔

اس کا آغاز ناخنوں سے دور جلد سے ہوتا ہے اور اگر یہ زیادہ عرصے تک رہے تو ناخنوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

فنگل میں مبتلا ناخنوں کا جلد سے جلد علاج کرنا بہتر ہوتا ہے۔

شروع میں یہ انفیکشن اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ جیسے ناخن کے اوپر ٹیلکم پاؤڈر چھڑکا گیا ہو۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ اینٹی فنگل نیل وارنش استعمال کر کے اس سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔

اگر یہ مرض بڑھ جائے تو ڈاکٹر کی مدد سے ناخن میں ننھے ننھے سوراخ کر کے ان کے اندر ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ وہ ناخن کے اندر کی جلد تک پہنچ سکیں۔

اس مرض کے علاج کی گولیاں صرف ڈاکٹر کے تجویز کرنے کے بعد ہی کھائی جائیں جو اس وقت تجویز کی جاتی ہیں جب مرض اپنی انتہا پر پہنچ جائے۔ اینٹی فنگل ادویات جگر کو تباہ کرسکتی ہیں لہٰذا اس ضمن میں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -