تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

آدم خور شیرنی کرنٹ کی باڑ میں‌ پھنس کر ہلاک

مہاراشٹر: چار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی آدم خور شیرنی بجلی کے تاروں کی باڑ میں پھنس کر ہلاک ہوگئی۔

تفصیلات کے مطابق دو ماہ قبل جولائی میں بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے دیہی علاقے میں انسانوں کی بستی پر آدم خور شیرنی نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور 4 زخمی ہوئے تھے۔

محکمہ جنگلات نے شیرنی کو جولائی میں پکڑ لیا تھا مگر اُس کی نگرانی کے لیے گلے میں ایک پٹا ڈالا گیا، شیرنی نے اُس کے بعد بھی گاؤں براہم پوری میں حملہ کر کے دو افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔

مہاراشٹر کے مقامی افراد کی جانب سے ان واقعات کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا جس پر جج نے آدم خور شیرنی کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری کیا، جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے عدالتی حکم کو چلینج کررکھا تھا۔

چودہ اکتوبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران محکمہ جنگلات کے حکام نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آدم خور شیرنی کو پکڑنے کے لیے کرنٹ کے باڑ نصب کیے گئے تھے جنہیں پھلانگنے کے دوران شیرنی پھنسی اور کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگئی۔

رکیش رانجھن نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آدمی خور شیرنی ہفتے کے روز 2 بج کر 30 منٹ پر بجلی کے تاروں میں مردہ پائی گئی‘۔ عدالت نے منتظمین کا مؤقف سننے کے بعد مقدمہ بند کردیا۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کوشاں تنظیموں نے شیرنی کی موت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا، کارکنان کا کہنا ہے کہ شیرنی کرنٹ لگنے سے خود نہیں مری بلکہ اسے مارا گیا ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -