تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

کیا آپ چائے کی تاریخ جانتے ہیں؟

چائے دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے جو دنیا کے ہر خطے میں علیحدہ طریقے سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ مشروب دنیا بھر میں کافی سے بھی زیادہ مقبول ہے۔ چائے کا اصل خطہ چین کا جنوب مغربی علاقہ ہے جہاں ہر سالانہ 1.6 ارب پاؤنڈز چائے پی جاتی ہے۔

تاہم فی فرد چائے پیئے جانے کے حساب سے ترکی، آئرلینڈ اور برطانیہ سب سے آگے ہیں جہاں دنیا کے سب سے زیادہ چائے کے شوقین پائے جاتے ہیں۔

چائے کی دریافت

چینی کسان شننونگ

چائے کی دریافت کا سہرا ایک چینی کسان شننونگ کے سر ہے جو چینی عقائد کے مطابق زراعت کا بانی ہے۔ اپنے ایک مذہبی سفر کے دوران اس نے غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی بوٹی 72 بار کھا لی جس کے بعد وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا۔

اسی وقت ایک پتہ ہوا میں اڑتا ہوا شننونگ کے منہ میں چلا گیا۔ شننونگ نے اس پتے کو چبا لیا اور اسی پتے نے اسے مرنے سے بچا لیا۔

یہی پتی چائے کا پتہ تھا جو آگے چل کر دنیا کے مقبول ترین مشروب کی حیثیت اختیار کرگیا۔

گوکہ چائے کسی بھی زہر کا تریاق نہیں ہے، تاہم شننونگ کی اس کہانی کے باعث، جسے مؤرخین ایک داستان بھی قرار دیتے ہیں، چائے چینی مذہبی عقائد و روایات میں ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق چائے کی پہلی کاشت اسی خطے میں تقریباً 6 ہزار سال قبل کی گئی تھی۔ اس وقت مصر کے فراعین کو اہرام مصر تعمیر کرنے میں بھی ابھی 15 سو سال کا عرصہ باقی تھا۔

چائے کا ابتدائی نام

چائے کو ابتدا میں کھانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ کہیں اس پودے کو بطور سبزی استعمال کیا جاتا تھا اور کہیں اسے گندم کے دانوں کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا تھا۔

کھانے سے مشروب کی حیثیت چائے نے صرف 15 سو سال قبل اختیار کی جب کسی نے حادثاتی طور پر دریافت کیا کہ حرارت اور نمی کے ذریعے ان پتوں سے نہایت ذائقہ دار مشروب تیار کیا جاسکتا ہے۔

چائے کے مختلف استعمالات کے طویل ارتقا کے بعد بالآخر گرم چائے نے مشروب کی اسٹینڈرڈ حیثیت اختیار کرلی۔

اس وقت چائے کے بہت سارے پتے لے کر، انہیں پیس کر پاؤڈر کی شکل دینے کے بعد گرم پانی میں ملایا جاتا جس کا ابتدائی نام ’مؤ چا‘ یا ’میٹ چا‘ تھا۔

یہ مشروب چین میں نہایت تیزی سے مقبول ہوگیا۔ بہت جلد اس کا تذکرہ چینی ادب و شاعری میں بھی کیا جانے لگا جبکہ یہ بادشاہوں کی پسندیدہ شے بن گیا۔

اس وقت چینی فنکاروں نے چائے کی سطح پر نقش و نگاری بھی انجام دی۔ اسے آپ آج کے زمانے کے جدید کافی آرٹ کی ابتدائی شکل کہہ سکتے ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب ریشم اور چینی مٹی کے برتنوں کی تجارت نے چین کو اہم تجارتی طاقت بنا رکھا تھا۔ بہت جلد ان دو اشیا کے ساتھ چائے بھی چین کی اہم تجارتی شے بن گئی اور بڑے پیمانے پر چین سے اس کو خریدا جانے لگا۔

چائے کا غیر ملکی سفر

نویں صدی میں ایک جاپانی راہب اس پودے کو بطور تحفہ چین سے جاپان لے کر آیا

ابھی تک چائے صرف چین میں اگائی جاتی تھی اور چند ایک ممالک اسے چین سے خریدا کرتے تھے۔

نویں صدی میں جب چین پر تنگ خانوادے کی حکومت تھی، ایک جاپانی راہب اس پودے کو بطور تحفہ چین سے جاپان لے کر آیا۔ اس کے بعد جاپان میں چائے کی مقبولیت کا دور شروع ہوگیا۔

سولہویں صدی میں ڈچ تاجر چائے کی بڑی مقدار  یورپ لے کر آئے اور یہاں سے چائے کی مقبولیت کا نیا دور شروع ہوا۔

برطانیہ میں چائے کی مقبولیت کا سہرا ملکہ کیتھرائن آف برگنزا کے سر ہے۔ کیتھرائن پرتگال کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس نے 1661 میں شہنشاہ چارلس دوئم سے شادی کی۔

ملکہ کیتھرائن آف برگنزا

سنہ 1662 سے 1685 تک برطانیہ کی ملکہ رہنے والی اس غیر ملکی خاتون نے چائے کو برطانوی اشرافیہ کا ایک پسندیدہ مشروب بنا دیا۔

برطانیہ اس وقت دنیا کے دیگر ممالک پر اپنا نوآبادیاتی تسلط قائم کر رہا تھا۔ اسی تسلط کے زیر اثر برطانیہ کے ماتحت علاقوں میں دیگر اشیا کے ساتھ چائے کا رواج بھی فروغ پانے لگا۔

سنہ 1700 تک چائے یورپ میں کافی سے 10 گنا زائد فروخت کی جارہی تھی جبکہ ابھی تک اس کی کاشت صرف چین میں کی جارہی تھی۔

اس دور میں چائے کی تجارت ایک منافع بخش کاروبار بن چکی تھی اور بڑے بڑے سمندری جہاز صرف چائے کی کھیپوں کو ایک سے دوسرے ملک پہنچایا کرتے تھے۔

چائے وجہ تنازعہ کب بنی؟

ابتدا میں برطانیہ چائے کو چاندی کے سکوں کے عوض خریدا کرتا تھا، تاہم یہ سودا اسے مہنگا پڑنے لگا۔

اسی دوران اس نے چین کو چائے کے بدلے افیم دینے کی پیشکش کی جسے چین نے قبول کرلیا اور یوں دونوں ممالک میں چائے اور افیم کا تبادلہ ہونے لگا۔

انیسویں صدی میں چین اور برطانیہ کے درمیان چائے اور افیم کا تبادلہ ہونے لگا

تاہم بہت جلد اس تجارتی تبادلے نے چینی شہریوں کی صحت پر بدترین منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردیے۔ چینی افیم کے نشے میں مستقل دھت رہنے لگے۔

سنہ 1839 میں ایک چینی حکومتی عہدیدار نے افیم کی ایک بڑی برطانوی کھیپ کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ اقدام ان دونوں اقوام کے درمیان ایک جنگ کے آغاز کا باعث بن گیا۔

سنہ 1842 میں قنگ خانوادے نے برطانیہ سے شکست کے بعد ہانگ کانگ کی بندرگاہ انگریزوں کے حوالے کردی۔ چائے کی تجارت دوبارہ بحال ہوگئی لیکن اب اس میں چین کی مرضی کی شرائط شامل نہیں تھیں۔

اس جنگ نے چین کی معاشی حیثیت کو خاصا متاثر کیا۔

چائے کی اسمگلنگ

برطانوی ماہر حیاتیات رابرٹ فورچون

برصغیر پاک و ہند کو اپنا محکوم بنانے والی برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی چائے کی فصل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے خود اسے اگانا چاہتی تھی۔

اس مقصد کے لیے ایک برطانوی ماہر حیاتیات رابرٹ فورچون کو مقرر کیا گیا کہ وہ کسی طرح ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے چین سے چائے کے پتے چرا کر لے آئیں۔

رابرٹ اپنا بہروپ بدل کر چین میں چائے کی کاشت کرنے والے پہاڑوں میں ایک خطرناک مشن پر نکل گیا۔ یہاں سے اس نے چائے کے پودوں کو بھارت کے علاقے دارجلنگ میں اسمگل کیا۔

بعد ازاں دارجلنگ میں بھی مقامی طور پر چائے کی کاشت کا آغاز کردیا گیا۔

ترکی کی میٹھی رائز چائے سے لے کر نمکین تبتن مکھن والی چائے تک یہ مشروب دنیا بھر میں بے پناہ مقبول ہے اور روزانہ اس کا استعمال زندگی کا اہم حصہ ہے۔

دنیا کا ہر علاقہ اسے اپنی روایات کے مطابق تیار اور استعمال کرتا ہے۔ مختلف زبانوں میں اس کا نام بھی مختلف ہے، تاہم چائے کی جسم اور دماغ کو تازہ دم کرنے اور فرحت بخش احساس دلانے کی خاصیت یکساں ہے۔

Comments

- Advertisement -