تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

دنیا میں خواتین کی آبادی لگ بھگ مردوں کے برابر ہو چکی ہے، اس کے باوجود آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ عدم مساوات خواتین کے خلاف بڑے بڑے سنگین جرائم کا سبب ہے اور انہیں روکنے میں حکومتیں اور عدالتیں بھی ناکام ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہاں خواتین کو جان کا تحفظ تو حاصل ہے لیکن عملی میدان میں انہیں وہ مواقع حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں کم باصلاحیت خیال کیا جاتا ہے۔

ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں مختلف چیلنجنگ ٹاسک کے لیے پہلے مرد ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خواتین کی باری اس وقت آتی ہے جب کم از کم 2 سے 3 مرد ملازمین اس کام کو کرنے سے انکار کرچکے ہوں۔

اسی طرح دفاتر میں خواتین کے آئیڈیاز اور تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بعض مرد ملازمین ان کی تجاویز کو اپنی طرف سے پیش کر کے مالکان سے داد وصول کرلیتے ہیں اور اس آئیڈیے کی خالق خاتون حیران پریشان رہ جاتی ہے۔

یہی نہیں اکثر شعبوں میں خواتین تنخواہوں اور دیگر سہولیات کے معاملے میں بھی مردوں کی ہم صلاحیت ہونے کے باوجود ان سے پیچھے ہیں۔

اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

کام کرنے کی جگہوں پر خواتین مساوات کیسے حاصل کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔ اگر دفاتر میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی تفریق کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو خواتین ایک دوسرے کی حمایت کرکے اور آپس میں متحد ہو کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: فرانس کی خاتون وزرا کا شوقین مزاج مرد سیاست دانوں کے خلاف محاذ

تاہم اس کی ایک عمدہ مثال وائٹ ہاؤس میں دیکھنے میں آئی۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا جیسے ملک میں بھی صںفی تفریق پائی جاتی ہے جہاں اس کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی صدارتی محل یعنی وائٹ ہاؤس تک میں خواتین ملازمین صنفی تفریق کا شکار ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک خاتون جولیٹ ایلپرن نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہاں موجود خواتین نے صنفی تفریق کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

وہ بتاتی ہیں، ’وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک تہائی سے زائد عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ خواتین جب میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کرتیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا۔ وہ جب بات کرنے کی کوشش کرتیں تو ان کی بات کو کاٹ دیا جاتا۔ اکثر اوقات خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کو نظر انداز کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی مرد نے انہیں اپنا آئیڈیا بنا کر پیش کردیا جس کے بعد میٹنگ روم تالیوں سے گونج اٹھتا‘۔

جولیٹ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی تمام خواتین نے ایک حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ میٹنگ میں جب کوئی خاتون کوئی مشورہ یا تجویز پیش کرتیں تو دیگر تمام خواتین اپنی باری پر اس نکتہ کو بار بار دہراتیں اور اس خاتون کا نام لیتیں جنہوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہوتا۔

اس سے میٹنگ میں موجود مرد عہدیداران نے مجبوراً ان کی بات پر توجہ دینی شروع کردی۔ خواتین کی اس حکمت عملی سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ مردوں نے ان کے آئیڈیاز کو چرا کر انہیں اپنے نام سے پیش کرنا چھوڑ دیا۔

جولیٹ کا کہنا تھا، ’آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس صورتحال کو صدر اوباما نے بھی محسوس کرلیا اور وہ مرد عہدیداران کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ اہمیت دینے لگے‘۔

خیال رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق صدر باراک اوباما وہ پہلے صدر ہیں جو صنفی مساوات کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامیہ کو امریکی تاریخ کی سب سے متنوع انتظامیہ کہا جاتا ہے جس میں خواتین اور سیاہ فام افراد شامل ہیں اور یہ افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی تعینات ہیں۔

 مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

جولیٹ بتاتی ہیں کہ جب صدر اوباما کا دوسرا دور صدارت شروع ہوا تو خواتین کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دی جانے لگی اور میٹنگز کے دوران مرد و خواتین دونوں کو بولنے کا یکساں وقت دیا جانے لگا۔

جولیٹ کے مطابق یہ تکنیک ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اپنی شناخت منوانے کے لیے خواتین کو خود متحد ہونا پڑے گا اور جب تک وہ آپس میں متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی، تب تک ہمیں اکیسویں صدی میں بھی صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Comments

- Advertisement -