تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

ہزاروں سال سے دریاؤں کا ایک مخصوص راستے پر بہنا ایک قدرتی عمل ہے، اور اس راستے میں تبدیلی آنا، یا پلٹ کر مخالف سمت میں بہنا بھی کسی حد تک قدرتی عمل ہے، لیکن اس کی وجہ جغرافیائی عوامل ہوتے ہیں۔

تاہم کینیڈا کا یوکون دریا صرف چند ماہ کے اندر اپنا رخ مکمل طور پر تبدیل کر چکا ہے اور اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج ہے۔

اس دریا کے بہاؤ میں غیر معمولی تبدیلی اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئی جب اس کا منبع جو کہ ایک گلیشیئر تھا، اپنی جگہ سے کھسک گیا جس کے بعد گلیشیئر سے بہنے والا پانی دوسرے دریا میں گرنے لگا۔

اس سے یوکون کی سب سے بڑی جھیل کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی اور سارا میٹھا پانی اب سمندر کی بجائے الاسکا کے جنوب میں بحرالکاہل میں گرنے لگا ہے۔

مزید پڑھیں: صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

ماہرین کے مطابق اس گلیشیئر سے پگھلنے والی برف کا بہاؤ شمال کی جانب ہوتا تھا مگر موسمیاتی تغیرات کے سبب برف کی تہہ پگھل کر کم ہوئی اور اب یہ پانی جنوب کی جانب بہنے لگا ہے۔

اب اس مقام پر، جہاں دریا کا بہاؤ نہیں ہے، پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور دریا کی تہہ میں پڑے پتھر اور پتھریلی زمین ظاہر ہورہی ہے۔

سائنسدانوں نے اسے دریا کی ہائی جیکنگ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے ایک دریا کا دوسرے دریا کے پانی اور بہاؤ پر قبضہ کر لینا۔

دریا کے بہاؤ پر تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اب دریا کا بہاؤ ہمیشہ اسی صورت رہے۔

مزید پڑھیں: دریائے سندھ نے زمین نگلنا شروع کردی

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر کسی دریا کے پانی کے بہاؤ کا رخ بدلنے کا عمل ہزاروں لاکھوں سال میں انجام پاتا ہے اور اس کی وجہ زیر زمین پلیٹوں کی تبدیلی یا ہزاروں لاکھوں برس تک زمین کا کٹاؤ رونما ہونا ہے۔

تاہم یوکون دریا کے بہاؤ میں تبدیلی صرف چند ماہ میں رونما ہوئی ہے جو تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے اور اس نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -