تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

بابری مسجد کیس، سپریم کورٹ نے معاملہ بات چیت سے حل کرنے کا مشورہ دے دیا

نئی دہلی : بھارت میں مسلمان انصاف سے محروم ہے، پچیس سال سے زائد عرصے بعد بھی بابری مسجدکیس کافیصلہ نہ ہوسکا، سپریم کورٹ نے معاملہ بات چیت سے حل کرنے کا مشورہ دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق نام نہاد سیکولر بھارت میں اقلیت بالخصو ص مسلمان ہوناجرم ہے اور انصاف کا حصول کم و بیش نا ممکن ہوتا جارہا ہے، چوتھائی صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا لیکن بابری مسجد کی شہادت سے متعلق کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت پر فریقین کو مسئلہ عدالت سے باہر حل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ فریقین معاملہ بات چیت سے حل کریں، بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہوا تو مداخلت کریں گے اور ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔

مسلم دشمن بی جے پی اور بابری مسجد کی شہادت میں شریک دیگر ہندو جماعتیں عدالتی ریمارکس سے خوش ہیں۔


مزید پڑھیں : بابری مسجد شہادت کیس، مقدمے کی سماعت میں تاخیر پر بھارتی سپریم کورٹ کا اظہارِ تشویش


یاد رہے چند روز قبل بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے مقدمے کی سماعت میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کے سینئر رہنما اوربابری مسجد کی شہادت میں پیش پیش ایل کے ایڈوانی کا نام کیس سے خارج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی کا نام تکینکی بنیادوں پرخارج نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ ایودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے انیس سوبانوے میں شہید کردیا تھا، مسجد کی شہادت کے بعد احتجاج کرنے پر سیکڑوں مسلمانوں کو بھی شہید کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ ہندو تنظیموں نے یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ وہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 1528ء میں مندر گرا کر اس اراضی پر بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔

Comments

- Advertisement -