تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

طبی و نفسیاتی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی و نفسیاتی امراض کی شرح ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے اور ان کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہورہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شرح عموماً ترقی پذیر ممالک میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جہاں صنفی امتیاز کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ صنفی امتیاز کا شکار سب سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں۔ وہ زندگی بھر مختلف مشکلات اور نا انصافیوں کا سامنا کرتی ہیں جن میں سرفہرست گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی ہے۔

مزید ستم یہ کہ، ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنے دکھ اور تکلیف کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی نتیجتاً ان کی دماغی کیفیات تبدیل ہونے لگتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ منفی تبدیلیاں دماغی یا نفسیاتی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔

مردوں کی بالادستی پر قائم معاشروں میں خواتین زندگی بھر کس قدر تکالیف، درد اور کرب کا شکار ہوتی ہیں، اس کی جھلک آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

خواتین کے اندرونی کرب کو آشکار کرتیں یہ تصاویر صرف ایک جھلک دکھاتی ہیں کہ بظاہر نازک اور کمزور سمجھنے والی خواتین کو کس قدر زیادتیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

خواتین کی طبی سہولیات پر کام کرنے والی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ خواتین سے ناانصافیوں کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے جب ان کے والدین ان پر، ان کے بھائیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اچھا کھانا، اچھی تعلیم اور اچھی طبی سہولیات پہلے ان کے بھائی کے حصہ میں آتی ہیں۔

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ رشتے اور چہرے بدلتے جاتے ہیں، عورت اور اس کی برداشت کی صلاحیت وہی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد کو ایک معمولی بات سمجھا جاتا ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

لیکن یہ ناانصافیاں، ظلم و جبر اور دباؤ ان کی اندرونی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نتیجتاً خواتین ذہنی و نفسیاتی امراض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں۔

ان فن پاروں کی تخلیق کار سائرہ انور نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے آس پاس موجود خواتین پر ہوتی ناانصافیوں اور امتیاز کو دیکھتے ہوئے انہیں اس قسم کے فن پاروں کی سیریز پیش کرنے کا خیال آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پینٹنگز کے ذریعہ ایک طرف تو خواتین کے اندرونی کرب کی عکاسی کی گئی ہے، دوسری طرف دیگر افراد کو بھی اس درد اور کرب سے آگاہی دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’میں سمجھتی ہوں کہ ایک آرٹسٹ کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تلخ و درد ناک پہلوؤں کو محسوس کرے اور دیگر افراد کی توجہ بھی اس طرف دلانے کی کوشش کرے‘۔


مصورہ کے بارے میں

سائرہ انور لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارا۔ وہ لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

سائرہ کو بچپن سے مصوری کا شوق تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز انہوں نے اپنے زمانہ طالبعلمی سے کیا۔ سائرہ اپنے فن کے اظہار کے لیے فی الحال آئل پینٹنگ اور آکریلکس کا استعمال کرتی ہیں، البتہ وہ اس فن میں مزید تجربات کرنا چاہتی ہیں۔


سائرہ نے اپنے فن پاروں میں زیادتی کا شکار خواتین کے خوف اور کرب کو بیان کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف 65 ممالک سے حاصل کیے گئے جبکہ یہ صرف وہ شرح ہے جو منظر عام پر آسکی۔ لاکھوں ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے، جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطر دبا دیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

اقوام متحدہ نے اس شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیا ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

جہاں تک صنفی امتیاز کا تعلق ہے، تو اس سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے طاقتور ترین اداروں میں سے ایک وائٹ ہاؤس تک محفوظ نہیں۔ وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والی خواتین کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

سائرہ نے اپنی پینٹنگز کے بارے میں مزید بتایا کہ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے معروف مفکر رومی کو پڑھا جس نے ان کے خیالات اور بعد ازاں ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

سائرہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رومی کی شاعری، اقوال اور ان کے اندر چھپے وجدان کو اپنے آرٹ میں بیان کرنے کی کوشش کی، اور اس کوشش سے ان کا آرٹ عام انداز سے بنائی گئی پینٹنگز سے ہٹ کر گہری معنویت رکھنے والا فن بن گیا۔

سائرہ کا عزم ہے کہ وہ اپنے آرٹ کے ذریعہ معاشرے کو مثبت پیغام پہنچائیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایسا آرٹ تخلیق کریں جو معاشرے کو اخلاقی تربیت اور آگہی و شعور فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

Comments

- Advertisement -