تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کے لیےملتوی کردی گئی۔

تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پانامالیکس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت آج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

لارجر بینچ میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

درخواستوں کی سماعت کاآغاز کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیس کو کسی صورت التواکا شکار نہیں ہونے دیا جائےگااورسماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئےوزیراعظم کی 4 اپریل کی تقریر کا حوالہ دیا،نعیم بخاری کا کہناتھا کہ نواز شریف نے غلط بیانی کی،وہ صادق اورامین نہیں رہے،نااہل قراردیا جائے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی تقریر میں دوبئی فیکٹری کا کوئی ذکر نہیں،نواز شریف کی تقریر جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کی مطابقت بھی واضع کریں۔

جسٹس اعجازالحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ آپ کا انحصار وزیر اعظم کی دو تقریروں پر ہے،کیاوزیر اعظم کی یہ دستخط شدہ دستاویز ہیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس وزیر اعظم کی دستخط شدہ کوئی دستاویز نہیں ہے،آئی سی آئی جے کی دستاویزات اور رپورٹس عالمی سطح پر جاری ہوئیں لیکن انہیں ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔

نعیم بخاری نے مزید کہا کہ چیئرمین نیب اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے،عدالت چیئرمین نیب کو تاخیر کے باوجودہائی کورٹ کےفیصلےکےخلاف اپیل کرنےکاکہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین نیب اپنا جواب جمع کراچکے ہیں،چیئرمین نیب کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر قطری شہزادے کے خط کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو سارا کیس واضح ہوجائے گا۔

عدالت نے نعیم بخاری کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آف شور کمپنیاں 2006 سے پہلے ہی وزیراعظم کے بچوں کی ملکیت میں تھیں۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نومبر میں سابق قطری وزیراعظم کے پیش کیے گئے خط کے مطابق لندن فلیٹس الثانی فیملی کی ملکیت تھےجس کے بعد شریف خاندان نے انہیں خریدا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے کہ الثانی خاندان ہی ان فلیٹس کا مالک تھا۔

عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو حکم دیا کہ وہ پارک لین فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے ذرائع کی معلومات واضح کریں۔

قطری شہزادے کےخط کے مطابق لندن کے پارک لین فلیٹس نواز شریف کے والد میاں شریف نے 1980 میں خریدے، دستاویز کے مطابق ان فلیٹس کو دبئی اسٹیل ملز فروخت کرکے خریدا گیا۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ان فلیٹس میں سرمایہ کاری اس قدر منافع بخش تھی کہ 1980 سے 2006 تک اربوں روپے حاصل ہوگئے۔

دوران سماعت سیاستدانوں کی سپریم کورٹ کے احاطے میں میڈیا ٹاک پر بھی عدالت کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ احاطے کو سیاسی اکھاڑہ نہ بنایا جائے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا نواز شریف نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا، وزیراعظم 1980سے1997تک بزنس اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے۔

عدالت نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ نواز شریف دوبارہ وزیراعظم کب منتخب ہوئے، ملک بدر کب ہوئے، پنجاب کے وزیراعلیٰ کب بنے، اور پنجاب کے وزیر خزانہ کب رہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے یہ تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کردیا۔

پاناما کیس کی سماعت سے قبل آج سپریم کورٹ کے باہر گفتگو میں تحریک انصاف کےچیئرمین کا کہنا تھا کہ امید ہے اب حالات بدل جائیں گے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنا معیار اوروقارکھودیا،کُل جماعتی کانفرنس بلاکرنگران حکومت کا اعلان کیا جائے۔

تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمد قریشی کا کہنا تھا کہ موسم بدل رہا ہے،وکیل بدل چکے ہیں،لگتا ہے رُت بدلنےوالی ہے۔

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن نواز،حسین نواز اور بیٹی مریم صفدر کے خلاف گذشتہ سال ستمبر میں چار درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں تھیں۔

درخواست گزاروں میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ اس سے قبل ان درخواستوں کی سماعت کر چکی ہے لیکن چیف جسٹس جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سماعت کرنے والے بینچ کے ٹوٹ جانے کے بعد اب ان درخواستوں کی ازسر نو سماعت شروع کی جا رہی ہے۔

خیال رہےکہ گزشتہ سال سپریم کورٹ کے لارجر بینج نےسابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاناما کیس کی 10 سماعتیں کیں تھی۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس، پی ٹی آئی نے مزید دستاویزات جمع کرا دیں

یاد رہےکہ تحریک انصاف کی طرف سے پاناما پیپرز کیس میں اضافی دستاویزات داخل کی گئی ہیں۔دستاویزات میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 2005ء میں مریم صفدر آف شور کمپنیوں اور لندن فلیٹس کی ٹرسٹی نہیں حقیقی وارث ہیں،ان کے ٹرسٹی ہونے کا دعویٰ درست نہیں۔

دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کا مقدمہ سلمان اسلم بٹ کے بجائےاب معروف قانون دان مخدوم علی خان لڑرہےہیں،مریم صفدر اور کیپٹن صفدر کی وکالت شاہد حامد کررہےہیں،حسین نواز کی طرف سے اب اکرم شیخ نہیں سلمان اکرم راجہ مقدمہ لڑرہے ہیں۔

واضح رہے کہ شریف خاندان کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی یہ مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے فیصلے سے مسلم لیگ ن کی قیادت کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔

Comments

- Advertisement -