تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کل تک کے لیےہوگئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےکی۔

پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر مریم صفدر کے وکیل کی جانب سے وزیراعظم کی بیٹی کے نام خریدی گئی جائیداد کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئی۔

وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ والد نے بیٹی کے نام زمین خریدی،مریم نے قیمت ادا کی تو جائیداد بیٹی کو ٹرانسفر کر دی گئی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام بے نامی جائیداد کی خریداری کا ہے،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ان عدالتی فیصلوں میں دو فریقین کے درمیان تنازع تھا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کے درمیان جائیداد کی ملکیت کا کوئی تنازع نہیں،جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ ہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے،اس حوالے سے حقائق پیش کیے جائیں۔جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ مریم نواز کسی کے کفالت نہیں ،مالی طور پر خود مختار ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم کے اثاثوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےوہ اخراجات کیسے برداشت کرتی ہیں،انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں مزید حقائق شامد حامد پیش کریں گے۔

مخدوم علی خان نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جاسکتا،جبکہ بے نامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف ہے۔

وزیر اعظم کے وکیل نے بے نامی جائیداد سے متعلق ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وکیل صاحب آپ نے خود کہا جائیداد نام پر رکھی گئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ مریم کو تحفے میں رقم دی گئی جو اس نے بعد میں والد کوواپس کی،انہوں نے کہا کہ تحفے میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی۔اس سے لگتا ہے مریم نواز والد کی زیر کفالت ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ مریم نواز کے مالی حالات میں 2011 کے بعد بہت تبدیلی آئی،جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز 2010 میں بھی والد کے زیر کفالت نہیں تھیں۔

جسٹس شیخ عظمت کہا کہ معاملہ الیکشن کا نہیں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اہلیت کا ہے،وزیر اعظم کے عہدہ رکھنے کو چیلنج کیا گیاہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ محمود اختر نقوی کیس میں ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھاوزیر اعظم کو نہیں،نواز شریف کی نااہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دوسرے فریق کا کہنا ہےنواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔

پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کےدوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہناہے کہ کل کےدلائل پرآج وضاحت دی گئی،انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی پٹیشن میں کرپشن، ٹیکس چوری سے ہٹ چکے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکا کہناتھا کہ عمران خان کہتے ہیں ہمارا کیس غلط بیانی کا ہے،انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

دانیال عزیز کا کہناہے کہ تحریک انصاف مقدمے سے متعلق تذبذب کا شکار ہے،انہوں نے کہا کہ نوازشریف عدالت کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناہے کہ عمران خان کہتے ہیں میں پاناما پرکمیشن نہیں بننے دوں گا،انہوں نےکہا کہ گالی گلوچ کے ذریعے اداروں کودباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

دانیال عزیز کا کہناہےکہ وزیراعظم کے خلاف بغیرثبوت مقدمہ چلایا جارہا ہے،انہوں نے کہا کہ منفی ہتھکنڈے اور وارداتیں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہناہےکہ تحریک انصاف مقدمے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کا ہر لیڈر سماعت کو اپنا ایک رنگ دیتا ہے۔

طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت عظمیٰ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ عدالتیں دباؤ میں نہیں آیا کرتیں لیکن پی ٹی آئی کی کوشش پوری ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما کی سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو

تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ایک بھی سوال کاحقائق پرمبنی جواب نہیں دیا۔

فواد چودھری کا کہناتھاکہ یہ کہتے ہیں وزیراعظم کی تقریر کو ریکارڈ پرنہ لایا جائے،انہوں نے کہا کہ پہلے پیسے باہر گئے،پھر بیٹے نے اپنے والد کو بھیجے۔والد نے اپنی بیٹی کو دیے،بیٹی نے والد سے زمین خریدلی۔

پاناماکیس کی سماعت کی وقفے کےبعد دوبارہ آغاز پر جسٹس آٓف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں،انہوں نے کہا کہ ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 184/3کا اختیار یقینی طور پر عدالت قانون کے مطابق استعمال کرے گی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جب تک کسی دستاویز کی تصدیق نہ ہو جائے فیصلے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ دوسری جانب سے کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بھی کتاب عدالت کے سامنے رکھتا ہوں۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کتاب میں مصنف کی رائے پر یقین نہیں کر سکتے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ مقدمہ ہائی کورٹ میں ہو اور سپریم کورٹ میں آجائے تو کیا کہیں گے،انہوں نے کہا کہ 1993میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سناگیا۔

جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہو تو کیاپھربھی ایسا کیس سپریم کورٹ سن سکتی ہے،انہوں نے کہاکہ فوجداری کیس میں کسی کتاب کے مصنف کو بھی بلانا پڑتا ہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معاملات برسوں ہائی کورٹ میں رہیں تو سپریم کورٹ سماعت کر سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے تحت اخباری خبریں شواہد نہیں،قانون شہادت کے تحت خبروں کو قانون کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ 184/3کے تحت اخباری خبر کوعدالت مختلف انداز سے دیکھتی ہے،جس پر جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ 184/3کے کچھ مقدمات میں سپریم کورٹ نے اپنے اختیار کو وسیع کیا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ان مقدمات میں شواہد کا جائزہ لے کرحقائق تک پہنچاگیا۔عدالت نےکہا کہ اٹھاون ٹوبی کے تحت سپریم کورٹ نےحکومتوں کی برطرفی کے مقدمات سنےاورفیصلے کیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیا عدالت واقعاتی یا نتیجہ شہادت کا جائزہ نہیں لے سکتی ہے،جس پران مقدمات میں جائزہ لیا فیصلہ لیتے وقت صدرکے سامنے کوئی مواد تھا یا نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ جرم کی سزا پانچ سال ہے تو براہ راست نااہلی کی سزا ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

واضح رہے کہ پاناما کیس میں وزیراعظم کے دلائل مکمل ہوگئے،سپریم کورٹ نے سماعت کل تک لیے ملتوی کردی۔

Comments

- Advertisement -