تازہ ترین

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

پاکستان پر سفری پابندیاں برقرار

پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث عالمی ادارہ صحت...

نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے جج کیخلاف ریفرنس دائر

راولپنڈی: نو مئی کے مقدمات کی سماعت کرنے والے...

سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت پیر تک ملتوی

اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اگلی سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے لارجر بینچ نےسماعت کی۔

پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل62،63کے تخت نا اہلی کےلیے عدالت سے سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔

وزیراعظم کے وکیل کا کہناہےکہ تعلیمی قابلیت کے جعلی ہونے پرآرٹیکل 62کے تخت نااہلی ہوسکتی ہے،اثاثے چھپانے کے معاملے پر نااہلی آرٹیکل 62کے تحت ہو سکتی ہے۔

مخدوم علی خان کا کہناہےکہ الیکشن کے بعد نااہلی کا معیار کم نہیں ہوسکتا،الیکشن کے بعد کووارنٹو کی درخواست دائر ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ جعلی ڈگری کے معاملات بھی ٹریبونل کی سطح پر طے ہوئے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ جن مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے خلاف تھے۔

پاناماکیس کی سماعت کےدوران مخدوم علی خان نے جہانگیر ترین کیس کا حوالہ دیا،انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ کی نااہلی کا فیصلہ ٹریبونل سطح پر ہوا،جبکہ سپریم کورٹ نے ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے،ٹریبونل نے صدیق بلوچ سے انگریزی کے مضمون کے بنیادی سوال پوچھے تھے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سوالات کی بنیا د پر نااہلی کو ختم کیاتھا،سپریم کورٹ نے الیکشن کا دوبارہ حکم دیا تھا۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کے تعین کے لیے بھی ضابطہ موجود ہے،وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کو ماضی میں بھی چیلنج کیا گیا۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ یہ شاید وہی خطاب تھا جو وزیراعظم نے دھرنے کے دوران کیا،جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت بھی وزیراعظم پر سچ نہ بولنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر نے ڈیکلریشن کے بغیر ریفرنس مسترد کر دیا تھا،انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر کے فیصلے کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا۔

وزیراعظم کےوکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھاتھا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اسپیکر کے خلاف درخواستیں خارج کرچکی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا نااہلی کے لیے مناسب فورم کون ساہے یہ طے کرنا باقی ہے۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران کا میڈیا سےبات کرتے ہوئے کہناتھاکہ میاں صاحب کےبینک اکاؤنٹ میں ڈیولپمنٹ نہیں ہورہی،جس پرمیاں صاحب کو مشکل ہورہی ہے۔

عمران خان کا کہناتھاکہ میاں صاحب میری برائی کرتےہیں تو اپنےلئےاعزازسمجھتاہوں،اگروزیراعظم میری تعریف کریں گے تو میں گھبرا جاؤں گا۔

اس سےقبل گزشتہ سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا تھاکہ وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیاہے۔الزام میں کہاگیا بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی۔

وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیارکیاتھا کہ الزام میں موقف میں اختیارکیاگیاکہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں،جبکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا تھاکہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےعدالت میں تسلیم کیاحسین نواز کا ٹیکس نمبر ہے۔

حکومت کے وکیل نے کہاتھا کہ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں اور کہاگیاکہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اسمبلی رکنیت کے اہل نہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیاتھا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں؟جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔

وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھاکہ عدالت کمیشن بنائےجو دوبئی جاکر جائزہ لے،جس پر جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ وزیراعطم نے خود دوبئی فیکٹری کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے،اور اعتراف کے بعدبار ثبوت آپ پرہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھاکہ یہ بتائیں لندن جائیداد وزیر اعظم کے بچوں کی ہے یا کسی اور کی ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو یہ معلومات آپ سے درکار ہوں گی۔

جسٹس گلزا ر نےاستفسار کیاتھا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں ؟۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاجانناچاہتے ہیں کاروبار میاں شریف کا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہاتھا کہ دبئی فیکٹری کے لئے رقم کیسے گئی؟۔وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاتھا کہ دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرزمیاں شریف کے نہیں طارق شفیع کے تھے،آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر واضح نہیں ہوتا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو کہاتھا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہاتھا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی،اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔

اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہاتھا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔

مزید پڑھیں:پاناماکیس میں بارثبوت اب وزیراعظم کےوکلاپرہے‘سپریم کورٹ

وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھاکہ تفصیلات کا نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے،وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔

وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھاکہ صادق اور امین کی تشریح پرٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہوگا۔

واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیے،آج بھی وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل دیں گے۔

Comments

- Advertisement -