تازہ ترین

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

پانامالیکس کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی

اسلام آباد: پانامالیکس سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجربنچ نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاناما لیکس کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے کمیشن بنانے کے حوالے سے فریقین کا موقف سنا۔

سماعت کےدوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنا تو اس کا بائیکاٹ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا کیس بنا دیا عدالت اس پر فیصلہ دے ۔

دوسری جانب چیف جسٹس نے وزیراعظم کے وکیل سے پوچھا کہ آپ کو کیا ہدایات ملی ہیں جس پر سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ وزیراعظم کا نام پاناما پیپرز میں نہیں آیا اور اب تک وزیر اعظم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔

وزیراعظم کےوکیل سلمان اسلم بٹ کا کہناتھا کہ عدالت کمیشن بنانے یا نہ بنانے سے متعلق جو بھی فیصلہ کر لے قبول ہوگا۔

عدالت نےوزیراعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ سے پوچھاتو انہوں نے کہا کہ ہمیں کمیشن بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے البتہ کمیشن کے دائرہ کار پر اعتراض ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:پانامہ کیس میں کمیشن کے قیام کو مسترد کرتے ہیں،عمران خان

سپریم کورٹ کی جانب سے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا کہ عدالت کیس جاری رکھتے ہوئے پورے دلائل سنےگی۔

عدالت عظمیٰ نے پانامالیکس کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی جبکہ کیس کی آئندہ سماعت سپریم کورٹ کا نیا بنچ کرےگا۔

یادرہے کہ گزشتہ سماعت پرچیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا تھا کہ کمیشن تحریک انصاف کےالزامات پربنایا جائےگا،اور یہ سپریم کورٹ کےجج کی سربراہی میں ہوگا۔

چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کمیشن میں فریقین کوموقف پیش کرنے کا پوراموقع دیں گے،کمیشن کوتمام اداروں کی معاونت حاصل ہوگی اوراس کی رپورٹ ہمارے سامنے پیش کی جائےگی۔

پاناما لیکس کیس کے سماعت کے دوران چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے ریمارکس دیئےکہ دونوں طرف سے دستاویزی شواہد نامکمل ہیں ۔

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےانٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ دستاویزات لگائیں،ایسی دستاویزکوشواہد تسلیم نہیں کیاجاتا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہاتھا کہ بیانیہ اور دستاویزات پڑھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم کے وکیل کی طر ف سے سوالوں کے جواب نہیں آئے۔جبکہ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کی جائے۔

خیال رہے کہ پاناماکیس کی گزشتہ سماعت میں وزیراعظم کےوکیل سلمان اسلم بٹ تین سوالوں پراعلیٰ عدالت کو قائل نہ کرسکے۔

سپریم کورٹ کےلارجر بنچ نےحکومتی وکیل کے دلائل پر کہاتھاکہ عوام کے سامنے کیوں کہا گیاکہ تمام ریکارڈ موجود ہے سامنے لائیں گے۔

عدالت نے کہاتھا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں دادا اور پوتے کے درمیان باتوں کا باپ کو علم نہیں تھا۔سلمان بٹ وزیراعظم کے دفاع کے لیےخطرناک دلائل دے رہے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نےکہاتھا کہ مریم نواز کے زیر کفالت ہونےکامعاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔سپریم کورٹ کا ریمارکس میں کہنا تھاوزیراعظم قابل احترام ہیں لیکن پاناماکیس میں اُن کو جواب دینا ہوگا۔

پاناماکیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم نوازشریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نےدلائل دیتے ہوئے کہا تھاکہ مریم نواز کےگھرکا پتہ جاتی امرا لکھا ہے لیکن وہ قانونی طور پر اپنے شوہر کے زیر کفالت ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہاتھا کہ مریم نواز ان کے اخراجات اور آمدن کہاں سے آتی ہے؟جس پر سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی زرعی آمدن ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا تھاکہ آپ کو اور مجھے بہترعلم ہے کہ ٹیکس گوشوارے کیسے جمع کرائے جاتے ہیں،ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا معاملہ فنکشنل ہے،شایدآپ کے اور میرےٹیکس گوشوارے اسی طرح جمع ہوتے ہوں۔

جسٹس عظمت سعیدنےکہاتھا کہ مریم نوازنےٹیکس گوشواروں میں زرعی اراضی سےآمدن 21لاکھ،سفری اخراجات 35لاکھ بتائے۔ریٹرن کےمطابق مریم کی قابل ٹیکس آمدن صفرہے۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیاتھا کہ وزیراعظم نے مریم نواز کے لیے زمین کب خریدی،جس کے جواب میں سلمان بٹ نےکہا کہ اراضی 19 اپریل 2011 کو خریدی گئی۔

جسٹس عظمت سعید نے دوبارہ استفسار کیاتھا کہ رقم والد نے بیٹی کو تحفے میں دی جو بیٹی نے والد کو واپس کردی؟۔

پاناماکیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھاکہ مریم نوازکےپاس کوئی ریگولرجاب نہیں،والداور بھائیوں سےگفٹ لیتی ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ اس موقع پر صحافی نے عمران سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھے گئے 3 سوالوں کی کتنی اہمیت ہے ؟۔جس پرعمران خان نے جواب دیا کہ سوال تین نہیں اور بھی ہیں جو سپریم کورٹ نے پوچھے ہیں ۔

یاد رہےکہ اس سے قبل گزشتہ روز سپریم کورٹ میں عمران خان کی جانب سے نعیم بخاری اور وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سلمان اسلم بٹ پیش ہوئےتھے۔

اس موقع پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور پارٹی رہنماؤں سمیت حکومتی وزراء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کےدلائل

تحریک انصاف کے وکیل نےگزشتہ روز اپنے دلائل میں موقف اختیارتھاکہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی جبکہ لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دبئی مل فروخت کرکے بیان میں تضاد ہے۔

نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہاتھا کہ نوازشریف نےکہاتھا کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سےلیے۔انہوں نے کہاتھاکہ 33 ملین درہم میں دبئی اسٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔

پی ٹی آئی کے وکیل کا دوران سماعت کہناتھاکہ حسین نواز کےمطابق لندن فلیٹ قطرسرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے۔

انہوں نے کہاتھا کہ وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی ہے جبکہ2014 اور 2105 میں حسین نواز نے اپنےوالد نوازشریف کو 74 کروڑ کے تحفے دیئےجس پر وزیراعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا تھاکہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔جس پر نعیم بخاری نے کہاتھاکہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضع ثبوت ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئےتھے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت کا کہناتھا کہ زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے،ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے زور دیاتھا کہ مریم نواز سمیت تینوں بچے نواز شریف کی زیرِ کفالت تھے اور مستقل رہے لیکن اُنھوں نے ٹیکس بچانےکےلیےیہ بات ظاہرنہیں کی۔

حکومت وکیل سلمان اسلم بٹ کے دلائل

دوسری جانب گزشتہ روز وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیئے اور کہا تھاکہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔

سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ 1992 میں مریم نواز کی شادی کےبعد وہ وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں،اس طرح یہ دلائل کےمریم نواز 2011 اور 2012 میں وزیر اعظم کے زیر کفالت تھیں،درست نہیں ہیں۔

سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئےکہ پیسہ کہاں سے آیا یہ آپ نے ثابت کرنا ہے۔

سلمان اسلم بٹ کا کہناتھاکہ مریم نواز کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیےکوئی اورکالم موجود نہیں تھا۔

وزیرِ اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل میں بتایا تھا کہ مریم اپنی شادی کے بعد سےوزیراعظم کے زیرِ کفالت نہیں ہیں۔انہوں نے اپنے دلائل کےساتھ دستاویزشواہد بھی پیش کیے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا تھاکہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنےکی کیا ضرورت تھی،اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔

مزید پڑھیں:پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے3سوال،سماعت کل تک ملتوی

پی ٹی آئی کے وکیل اور وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کی جانب سے دلائل سننے کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے3 سوالات اٹھائےگئےتھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے سوالات میں میں پوچھا گیا کہ بچوں نےکمپنیاں کیسےبنائیں؟بچوں کے زیر کفالت ہونے کی وضاحت کی جائےاور تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں؟؟؟۔

واضح رہےکہ پاناماکیس میں سپریم کورٹ نےحکومت اور اپوزیشن سے گزشتہ سماعت پر تجویز طلب کی تھی کہ عدالت جوڈیشل کمیشن بنائے یا خودفیصلہ کرے آج فیصلہ متوقع ہے۔

Comments

- Advertisement -