تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی صنفی امتیاز کے ممالک کی فہرست میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ فہرست میں شامل 145 ممالک میں پاکستان کا نمبر 144واں ہے۔ ملک میں مختلف افراد اور ادارے صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہم نے ایسی ہی ایک نوجوان خاتون عروج اشرف اعوان سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں صنفی امتیاز کی وجہ آخر کیا ہے؟

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ جب تک خواتین تعلیم حاصل نہیں کریں گی، انہیں اپنے بنیادی حقوق کا علم نہیں ہوگا اور وہ اپنے لیے کیے جانے ہر فیصلے کو، چاہے وہ ان کے لیے درست ہو یا نہ ہو، آرام سے قبول کرلیں گی۔

دوسری وجہ خواتین کا معاشی طور پر خود کفیل نہ ہونا ہے۔ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اکثریت کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں اور وہ لامحالہ اپنے سرپرستوں کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہوتی ہیں۔

تاہم عروج اشرف اعوان کا ماننا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ’صنفی امتیاز‘ کی تشریح غلط کی جاتی ہے۔

وہ اس کی وضاحت کچھ یوں کرتی ہیں، ’صنفی امتیاز کا تعین چار چیزوں پر کیا جاتا ہے۔ معاشی عمل میں شرکت، تعلیمی مواقع، سیاسی خود مختاری، اور طبی سہولیات‘۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عروج اشرف وہ واحد پاکستانی نوجوان ہیں جو بین الاقوامی مہم ’ہی فار شی‘ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کے تحت شروع کی جانے والی اس مہم ’ہی فار شی‘ کا آغاز ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن نے کیا اور اس کا مقصد خواتین کی خود مختاری اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں مردوں کے کردار کو آگے لانا ہے۔

مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

چند دن قبل اس مہم کے دو سال پورے ہونے کے موقع پر نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں اقوام متحدہ کے نمائندگان سمیت جاپان کے وزیر اعظم شنزو ایبے، اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی شرکت کی۔

عروج نے اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے متاثر کن خیالات کا اظہار کیا۔

اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عروج کا کہنا تھا کہ معاشی عمل میں شرکت سے مراد اچھی ملازمتوں کے یکساں مواقع، یکساں تنخواہیں، اور اداروں میں رہتے ہوئے مختلف مواقع حاصل کرنے کا یکساں امکان ہے۔ تعلیم چاہے ابتدائی ہو، ثانوی یا اعلیٰ تعلیم، مرد و خواتین دونوں کے لیے اس کو حاصل کرنے کے یکساں مواقع ہوں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی بامعنی شمولیت، اور مردوں کو حاصل تمام طبی سہولیات کی خواتین کو بھی یکساں فراہمی دراصل صنفی برابری کی نشانی ہے۔

عروج کا تعلق ایک آرمی خاندان سے ہے۔ وہ ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے ایک ہیں جنہیں بچپن سے ہی وہی اہمیت و مواقع حاصل ہوئے جو ان کے بھائیوں کو ملے۔ انہیں اس صنفی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا آغاز سب سے پہلے لڑکیوں کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔

البتہ اپنی یونیورسٹی میں ان کا جنسی متعصبانہ رویے سے ضرور واسطہ رہا۔ انہوں نے لاہور کی ایک مشہور انجینیئرنگ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں 20 لڑکوں کے مقابلے میں ایک لڑکی زیر تعلیم تھی۔

ہی فار شی کی تقریب میں عروج نے بتایا، ’میرے کلاس فیلوز مجھے کہا کرتے تھے، لڑکیوں کو اچھے گریڈز ان کی کارکردگی و ذہانت کی بنیاد پر نہیں ملتے، بلکہ اس بنیاد پر ملتے ہیں کہ انہوں نے کتنا میک اپ کیا ہوا ہے‘۔

عروج کا خیال تھا کہ ایک پڑھے لکھے ماحول کا حصہ ہونے کے باوجود انہیں ایسی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ایک مڈل کلاس عام لڑکی کو کیا کیا نہ سننا پڑتا ہوگا۔

یہی وہ خیال تھا جس نے انہیں صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔

دوران تعلیم انہوں نے اپنی ساتھی طلبا کے ساتھ مل کر لڑکیوں کے لیے ایک سوسائٹی ’زمل‘ تشکیل دی جس کا مقصد صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے آگاہی پیدا کرنا تھا۔

مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

گزشتہ برس عالمی یوم خواتین کےموقع پر زمل نے لڑکوں کی ایک تنظیم ’خاردار‘ کے ساتھ مل کر ہی فار شی مہم کا پاکستان میں آغاز کیا۔ ’ایز برادر وی اسٹینڈ‘ کے نعرے کے ساتھ خاردار نامی تنظیم کا مقصد کم و بیش یہی تھا کہ خواتین کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے مرد قدم بڑھائیں۔

عروج بتاتی ہیں، ’اس مہم کے تحت ہم نے صنفی امتیاز کے خاتمے کی آگاہی کے لیے پوسٹرز تقسیم کیے اور بینرز لگائے۔ ہمارا مقصد تھا کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ وہ کون سے رویے ہیں جو صنفی امتیاز کا سبب بنتے ہیں‘۔

لیکن حسب توقع، لوگوں کو اس سے اختلاف تھا۔ عروج اور اس کے ساتھیوں کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔ ان کے لگائے گئے بینرز پھاڑ دیے گئے۔ کچھ لوگوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے شکایت کی کہ اس قسم کی سرگرمیاں تعلیمی اداروں کے لیے مناسب نہیں۔ بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ نے کسی تنازعہ سے بچنے کے لیے عروج اور اس کی ٹیم کو اپنی مہم بند کرنے کا حکم دیا۔

لیکن یہ چیز ان لوگوں کو ان کے مقصد سے نہ ہٹا سکی۔

عروج نے بتایا کہ لوگ اس سے پوچھتے تھے، ’تم ایک بہترین زندگی گزار رہی ہو، ایک اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہی ہو، پھر تم کس امتیاز کی بات کرتی ہو‘؟ اور عروج کا جواب تھا، ’بات صرف میری نہیں، ہر اس لڑکی کی ہے جسے اپنے حقوق کے لیے بولنے کی اجازت نہیں‘۔

انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ خواتین کی معاشی خود مختاری اور تعلیم دونوں ہی ان کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ ’معاشی طور پر خوشحال خواتین اپنی صحت سے متعلق مسائل کا حل نکال سکتی ہیں۔ جبکہ تعلیم انہیں قومی سیاست میں باعمل بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

عروج کا ماننا ہے کہ خود مختار اور باعمل خواتین مستحکم معاشرے کی تشکیل اور اس کے امن میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں اور نئی نسل کی بہترین تربیت کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بنا سکتی ہیں۔

عروج، ان کی ٹیم اور زمل کے بانی ارکان کو صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھانے پر گزشتہ برس ’ہی فار شی ہیرو ۔ گلوبل ایوارڈ‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

وہ کون سا قدم ہے جو پاکستان میں صنفی امتیاز کا خاتمہ کرسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عروج نے بتایا کہ آگاہی اور تعلیم دو بنیادی چیزیں ہیں۔ ’لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع دینے سے ان کی مذہبی و معاشی اقدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ صنفی امتیاز کا خاتمہ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے‘۔

مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

عروج کا کہنا تھا، ’اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دیے جسے ہم دوسرے لفظوں میں ان کی خود مختاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے قبل خواتین کی حیثیت مردوں کے لیے ایک مفتوحہ شے جیسی تھی۔ عزت کے ساتھ تمام بنیادی حقوق، اور یکساں مواقعوں کی فراہمی اسلام ہی نے عورت کو فراہم کیے‘۔

عروج بتاتی ہیں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے ملنا ان کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا۔ ’جسٹن ٹروڈو موجودہ دور کے وہ واحد لیڈر ہیں جو حقوق نسواں کے حامی اور علمبردار ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں‘۔

نیویارک میں ہونے والی اس تقریب میں عروج کی تقریر کو بے حد سراہا گیا اور شنزو ایبے اور جسٹن ٹروڈو سمیت حاضرین نے کھڑے ہو کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

عروج کا عزم ہے کہ وہ اس مہم کو پاکستان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں گی۔ ’ملک بھر سے اب تک 6 ہزار افراد (مرد) اس مہم میں شامل ہو کر اپنے آس پاس کی خواتین کو خود مختار بنانے کا عزم کر چکے ہیں‘۔

عروج کی متاثر کن تقریر کے بعد پاکستان اب ہی فار شی کے پلیٹ فارم پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ عروج اب اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے پوری طرح وقف کر چکی ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ اس مہم کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کریں گی۔

Comments

- Advertisement -