تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ترکی میں فوجی بغاوت کی سیاہ تاریخ

ترکی میں گزشتہ شب کی ناکام فوجی بغاوت نے 56 سالہ سیاسی تاریخ میں چار بار کی گئی فوجی بغاوتوں کی یاد تازہ کردی، ان فوجی بغاوتوں کے نتیجے میں جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا ٰیا گیا اور کئی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان خونی فوجی بغاوتوں میں کئی معصوم شہری جان سے گئے تا ہم اس بار عوام الناس نے ترک صدر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا ہے۔

ترکی میں پہلی فوجی بغاوت 27 مئی 1960 کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیمل گرسِل کی جانب سے کی گئی اس کامیاب فوجی بغاوت کے نتیجے میں اُس وقت کی حکومت کو معطل کردیا گیا تھا اور صدر،وزیر اعظم سمیت دیگر وزراء کو غداری اور دیگر جرائم کے الزامات میں پابند سلاسل کردیا گیا تھا بعد ازاں وزیراعظم عدنان مینڈرز کو پھانسی دے دی گئی تھی یہ مارشل لاء اکتوبر 1961 کو ختم ہوا اور منتخب جمہوری حکومت نے ملکی باگ دوڑ سنبھالی۔

T POST 1

دوسری مرتبہ12 مارچ 1971میں ترکی میں کئی مہینے سے جاری معاشی بد حالی ،بد امنی اور ہنگاموں کے بعد آرمی جنرل ممدوح ٹیگمک نے فوجی بغاوت کے بعد ملک کی مجموعی ذبوں حالی کے خاتمے اور معاشی و امن وامان کی بحالی کے نام پر کارِحکومت خود سنبھال لی۔

T POST 2

محض 9 سال بعد 12ستمبر 1980 میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان تناؤ اور تصادم تیسری بار پھر فوجی بغاوت کو دعوت گناہ دینے کا باعث بنا جس کے نتیجے میں جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی اور آرمی چیف ایڈ مرل بولینٹ نے بغاوت کے بعد وزیراعظم کو اُن کو عہدے سے ہٹا کر خود وزیر اعظم کی نشست پر براجمان ہو گئے اس فوجی بغاوت میں بھی کئی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

T POST 4

چوتھی بار 28 فروری 1997 میں مسلح افواج نے ماضی کے برعکس جمہوری اداروں پر ٹینکوں اور فوجی دستوں کے ساتھ چڑھائی تو نہیں کی تا ہم جمہوری حکومت کو کارِ حکومت چلانے کے لیے سخت سفارشات دی گئی تھیں حکومت وقت کے پاس ان سفارشات کو قبول کرنے اور نافذ کرنے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا تا ہم اس کے باوجود وزیر اعظم ترک سے جبری استعفیٰ لے لیا گیا تھا،یہ غیر اعلانیہ اورغیر سرکاری فوجی بغاوت بھی کامیاب بغاوت ثابت ہوئی پوری حکومتی مشینیری بہ شمول عدالت،تجارت، نشریات اور سیاسی قیادت فوج کے زیر تسلط رہے۔

T POST 3

یاد رہے اردگان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیلوپمنٹ پارٹی کے چودہ سالہ دورِ اقتدار میں تین بار بڑی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے 2008اور 2010میں ترک حکومت نے دو بڑی اندرونی فوجی بغاوت کو نا کام بنایا تھا،ترک عدالتوں نے تین جرنیلوں اور تین سو سے زائد فوجیوں کو سزائیں سنائیں۔

اسی طرح 2013 میں اردگان حکومت کو نئی قسم کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تھا،جب ایک پارک سے درخت اکھاڑنے کے منصوبے کی خلا ف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں کی آڑ میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن اردگان نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اپنی تدبرانہ قیادت اور دوراندیش پالیسیوں سے ممکنہ بغاوت پر قابو پالیا تھا۔

Comments

- Advertisement -