تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی بے شمار مسائل کا سامنا تھا۔ وسائل کی کمی اور بے سروسامانی کے ساتھ ایک نوزائیدہ مملکت کو چلانا ایک ایسا کام تھا جو جان توڑ محنت اور کئی قربانیوں کا متقاضی تھا۔

یہ زیادہ ضروری اس لیے بھی تھا کیونکہ پاکستان کے ابتدائی 10 سے 15 سال اس کی بنیاد کو مضبوط کرتے اور پاکستان کے مستقبل کا انحصار بھی انہی ابتدائی سالوں پر تھا۔

پاکستان میں ایک شعبہ ایسا ہے جسے ابتدا سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور وہ تھا ماحولیات کا شعبہ۔ پاکستان کے متنوع جغرافیہ اور وسائل کے باعث یہ بات ضروری تھی کہ اس شعبہ کو ترجیحات میں رکھا جاتا مگر ہوا اس کے برعکس۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ترقی کرنا شروع ہوا تو یہ ایک اہم ذریعہ تھا جس کے ذریعہ عوام کو ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ کیا جاتا مگر ادھر سے بھی اس شعبہ کی جانب سے بے اعتنائی برتی گئی۔

دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو ۔ چین اور پاکستان کی سرحد پر واقع

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کے اثرات آہستہ آہستہ واضح ہونے لگے۔ قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور سیلاب میں اضافہ، آبی ذخائر کی جانب سے بے اعتنائی برتنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی اور پاکستان کا پانی کی کمی کے شکار ممالک میں پہلے 10 ممالک میں آنا، سطح سمندر میں اضافہ اور اس کے باعث ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچنا، زراعت میں کمی اور ملک کے سب سے بڑے اور کاروباری شہر کراچی میں موسم کی قیامت خیز تبدیلی، یہ وہ عوامل ہیں جو شعبہ ماحولیات کی جانب سے ہماری مجرمانہ غفلت کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان میں شعبہ ماحولیات کی کیا صورتحال تھی، اس میں کیا اصلاحات کی گئیں اور اس شعبہ میں کتنے قوانین نافذ العمل کیے گئے۔

پاکستان کن پروگرامز کا رکن ہے؟

پاکستان اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کا رکن ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے نونہالان یونیسف کا بھی رکن ہے اور یونیسف کے تحت اس وقت پاکستان میں کئی پروگرامز اور منصوبے جاری ہیں۔

برصغیر کا وسیع ترین صحرا ۔ صحرائے تھر

پاکستان مشترکہ ماحولیاتی پروگرام برائے جنوبی ایشیا ایس اے سی ای پی کا بھی رکن ہے۔

کن معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے؟

پاکستان حال ہی میں پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کر کے موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ بن چکا ہے۔ اس ڈیل کے تحت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی سے عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی سے زیادہ بڑھنے نہیں دیں گے۔

اس معاہدے کے علاوہ پاکستان دیگر کئی کثیر الجہتی ماحولیاتی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے جنہیں ایم ای ایز کہا جاتا ہے۔

سال 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ایک ’ارتھ سمٹ‘ منعقد ہوا جس میں پاکستان سمیت 100 سے زائد ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ’ایجنڈا 21 ریو پرنسپلز‘ کی صورت میں سامنے آیا جس کے تحت تمام دستخط کنندگان کو اپنے ممالک میں ماحولیات کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔

اسی کانفرنس میں جنگلات کے تحفظ کے لیے رہنما اصول، ماحولیاتی بہتری کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام یو این ایف سی سی، اور حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کی منظوری عمل میں آئی۔

پاکستان 2002 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والی قدرتی وسائل کی پائیدار ترقی کانفرنس کے اعلامیہ پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

صرف دریائے سندھ میں پائی جانے والی (نابینا) ڈولفن ۔ انڈس ڈولفن

اسی طرح پاکستان خطرے سے دو چار جنگلی حیات کے شکار پر روک تھام کا معاہدہ سائٹس، صحرا زدگی کی روک تھام کا معاہدہ یو این سی سی ڈی، کیوٹو پروٹوکول (اس معاہدے کے تحت کاربن کا اخراج کرنے والے ان ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو اس کاربن اخراج سے متاثر ہو رہے ہیں۔)، ہجرت کرنے والے جانداروں کی حفاظت کا معاہدہ، آبگاہوں (کی حفاظت) کا رامسر معاہدہ، زہریلے مادوں کی بین السرحد نقل و حرکت کو روکنے کا باسل معاہدہ، بین الاقوامی تجارت میں کیمیائی مادوں کی روک تھام کا روٹر ڈیم معاہدہ، مضر صحت نامیاتی مادوں سے روک تھام کا اسٹاک ہوم معاہدہ، اور اوزون کی حفاظت کے مونٹریال پروٹوکول پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

پاکستان 2000 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے منصوبے ایم ڈی جیز کا بھی حصہ بنا۔

ملک میں کون سے ماحولیاتی ادارے کام کر رہے ہیں؟

پاکستان میں اب ماحولیات کے شعبہ میں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مل کر کام کر رہے ہیں جو ایک احسن قدم ہے۔ غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں میں ماحولیات سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے ماہرین موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر حکومتی ارکان کی رہنمائی و مشاورت کرتے ہیں۔

پاکستان میں 1974 میں انوائرنمنٹ اینڈ اربن افیئرز ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام ملک میں جاری ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا تھا۔

سنہ 1983 میں پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل اور پاکستان انوائرنمنٹ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

سنہ 1987 میں صوبائی پروٹیکشن ایجنسیاں ای پی ایز قائم کی گئیں تاہم یہ وفاق کے ماتحت تھیں۔

بقا کے خطرے کا شکار برفانی چیتا پاکستان کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے

اس کے بعد اس شعبہ میں کئی اصلاحات لائی گئیں اور پہلی بار باقاعدہ وزارت ماحولیات قائم کی گئی۔ پہلا وزیر ماحولیات سابق صدر آصف علی زرداری کو بنایا گیا۔

سنہ 2010 میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کردیے گئے جس کے بعد اب ہر صوبے کی ای پی اے یعنی ایجنسی برائے تحفظ ماحول خود مختار اداروں کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ اس ایجنسی کا مقصد صوبے میں ہونے والی ترقی کو ماحول دشمن ہونے سے بچانا اور ماحول اور عوامی صحت سے مطابقت کروانا ہے۔

اب تک کون سی پالیسیاں عمل میں لائی گئیں؟

پاکستان میں 1980 میں قومی حکمت عملی برائے تحفظ این سی ایس نافذ العمل کی گئی۔

اگست 1993 میں حکومت نے قومی ماحولیاتی معیارات (نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ۔ این ای کیوز) کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد تمام صنعتوں کو پابند کرنا تھا کہ وہ ماحول دوست مشینری اور طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعات بنائیں۔

فروری 2001 میں قومی ماحولیاتی ایکشن پلان این ای اے پی کی منظوری دی گئی۔ اس کا مقصد 4 شعبوں ( صاف ہوا، صاف پانی، زہریلے مادوں کی بحفاظت تلفی، اور ایکو / ماحول کی بہتری) میں حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔

پاکستان کی بڑی آبگاہوں (میٹھے پانی کے ذخائر) میں سے ایک ۔ بلوچستان کا استولا جزیرہ

اسی طرح 2005 میں قومی ماحولیاتی پالیسی کی بھی منظوری دی گئی۔ قومی پالیسی برائے صحت و صفائی ۔ نیشنل سینیٹیشن پالیسی 2006، قومی آبی پالیسی ۔ نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009، قومی پالیسی برائے موسمیاتی تغیرات ۔ نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی 2012، اور قومی پالیسی برائے جنگلات 2015 کا مسودہ بھی تیار رکھا ہوا ہے جو تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

ماحولیاتی عوامل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 2009 کو ماحولیات کا قومی سال قرار دیا۔

سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد وزارت ماحولیات کو وزارت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) میں تبدیل کردیا گیا اور اب ملک میں کلائمٹ چینج کی وزارت مختلف ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔

اب تک کون سے قوانین بنائے گئے ہیں؟

پاکستان میں ماحولیاتی قانون سازی سلطنت دہلی، مغلوں اور برطانوی حکومت کے دور سے کی جارہی ہے۔ سلاطین دہلی کے ادوار سے ہی ماحولیات سے متعلق تمام شعبہ جات جیسے اراضی کا استعمال، جنگلات، آب پاشی کا نظام، جنگلی حیات کا تحفظ، توانائی، کیڑے مار ادویات کا استعمال، شور کی آلودگی وغیرہ سے متعلق قوانین بنائے گئے۔

اس وقت شکار کے متعلق بھی قوانین عائد تھے جو برطانوی دور میں بھی جاری رہے۔ مثال کے طور پر 1860 میں نافذ کیے جانے والے کرمنل کوڈ کے تحت ایسا جانور جس کی قیمت 10 روپے سے زیادہ ہو اس کے شکار پر جرمانہ عائد تھا۔

ایک اور ایکٹ 1912 میں نافذ کیا گیا جس کے تحت پرندوں کے شکار کی اجازت ایک مخصوص علاقے، عرصہ اور صرف لائسنس یافتہ افراد ہی کو تھی۔ یہ ایکٹ قیام پاکستان کے بعد بھی نافذ العمل رہا۔

اسی طرح 1913 میں جنگات کی کٹائی کے خلاف پنجاب فاریسٹ ایکٹ نافذ کیا گیا۔

سنہ 1927 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے فاریسٹ ایکٹ کا نفاذ کیا گیا جو پاکستان کے قیام کے بعد کئی عشروں تک جنگلات کی قانون سازی کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت اختیار کیے ہوئے رہا۔

سنہ 1936 میں ہزارہ فاریسٹ ایکٹ، 1934 میں فیکٹری ایکٹ (فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے مواد کی بحفاظت تلفی) نافذ کیا گیا۔

پاکستان کی طویل اور قدیم ترین نمک کی کان ۔ کھیوڑہ سالٹ مائن

قیام پاکستان کے بعد ماحولیات سے متعلق پہلا قانون 1948 میں متعارف کروایا گیا جو کان کنی اور تیل کی صنعت سے متعلق تھا۔

سنہ 1952 میں 2 ایکٹ پنجاب ڈویلپمنٹ آف ڈیمیجڈ ایریاز ایکٹ اور پنجاب سوائل ری کلیمیشن ایکٹ متعارف کروائے گئے۔ یہ دونوں ایکٹ زرعی اراضی سے تعق رکھتے تھے۔

سنہ 1954 میں جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کے لیے کوہاٹ مزاری کنٹرول ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

سنہ 1959 میں مویشیوں سے متعلق ایکٹ ویسٹ پاکستان گوٹس ایکٹ اور عوامی صحت سے متعلق ویسٹ پاکستان فیکٹریز کینٹین رولز متعارف کروائے گئے۔

سنہ 1960 میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ویسٹ پاکستان اسموکنگ آرڈیننس متعارف کروایا گیا جس کے تحت سینما گھروں کے اندر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی گئی۔

سنہ 1961 میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے ویسٹ پاکستان فشریز آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔

سنہ 1964 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے ویسٹ پاکستان فائر ووڈ ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

سنہ 1965 میں فضائی معیار اور شور کی آلودگی کے خلاف موٹر وہیکل آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔ اسی قسم کا ایک اور آرڈیننس اسلام آباد آرڈیننس کے نام سے 1966 میں بھی متعارف کروایا گیا۔

ایشیا کے طویل ترین دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ ۔ یہ دریا پنجاب اور سندھ کی بیشتر زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے

سنہ 1970 سے لے کر 1980 کے دوران اس شعبہ میں بہت زیادہ قانون سازی دیکھنے میں آئی جن پر مختصر نظر ڈالیں گے۔

سنہ 1970 ۔ بلوچستان سی فشریز آرڈیننس

سنہ 1971 ۔ آبی حیات، پارک اور جنگی حیات کی حفاظت کے لیے رہنما اصول، زراعت میں کیڑے مار ادویات کا آرڈیننس

سنہ 1972 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سندھ

سنہ 1973 ۔ زہریلے اور مضر صحت مواد کے خلاف اصول ۔ اس سال تشکیل دیے جانے والے مملکت خداداد کے آئین میں ماحولیات کو بھی شامل کیا گیا۔

سنہ 1974 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ پنجاب، جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ و انتظام کا قانون، شجر کاری و تحفظ جنگلات پنجاب کا قانون

سنہ 1975 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ بلوچستان، ثقافتی ماحول کی بہتری کے لیے نوادرات ایکٹ، خطرے کا شکار جنگلات کی حفاظت کا قانون، تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سرحد (خیبر پختونخوا)۔

سنہ 1976 ۔ پاکستان شجر کاری ایکٹ، علاقائی پانیوں کا ایکٹ، پنجاب کی شہری ترقی کا ایکٹ، صوبہ سرحد کے فشریز کے قوانین

سنہ 1978 ۔ بلوچستان کے زمینی پانی کے حقوق کا آرڈیننس، پانی کے بہتری معیار میں اضافے اور مویشیوں کے جنگلات میں چرنے کے حوالے سے قانون

بلوچستان کا ہنگول نیشنل پارک ۔ یہ متنوع اقسام کے جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہے

سنہ 1979 ۔ 1980 ۔ زرعی زمین کے استعمال، آبی اور فضائی معیار، ٹھوس اخراج، جنگلات، پارکس، جنگلی حیات، مویشی اور عوام کی صحت و حفاظت کا آرڈیننس چاروں صوبوں اور مقامی سطح پر نافذ العمل کیا گیا۔

اسی دوران جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کا آرڈیننس ’اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس‘، جانوروں کی درآمد و برآمد کا آرڈیننس اور وبائی بیماریوں کے حوالے سے آرڈیننس بھی نافذ کیا گیا۔

ماحولیات کے حوالے سے جامع قانون سازی 1983 میں عمل میں لائی گئی جسے آرڈیننس برائے تحفظ ماحول 1983 کا نام دیا گیا۔ 1983 سے 1997 تک کا عرصہ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بہترین عرصہ تھا۔

سنہ 1997 میں پاکستان انوائرنمنٹ ایکٹ 1997 نافذ کیا گیا۔ یہ جنگلی حیات اور ماحول کی بہتری اور تحفظ کے حوالے سے بہترین ایکٹ تھا۔ اس کے تحت کئی ذیلی قوانین بھی نافذ  کیے گئے جن میں۔۔

ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز رولز 2001

پائیدار ترقی کے لیے فنڈز کا استعمال ۔ پاکستان سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ فنڈ (یوٹیلائزیشن) رولز 2001

آلودگی پھیلانے پر جرمانہ ۔ پلوشن چارج فار انڈسٹری رولز 2001

ماحولیاتی عدالت یا بینچ کا قیام ۔ انوائرنمنٹ ٹربیونل پروسیجر اینڈ کوالیفکیشن رولز 2000

ہنزہ ۔ گلگت بلتستان میں پھسو کونز، اس قسم کے نوکیلے پہاڑ دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں

ماحولیاتی مثالی اصول ۔ انوائرنمنٹل سیمپل رولز 2001

مضر صحت اجزا کا قانون ۔ ہزارڈس سبسٹنس رولز 2000

اور قومی ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ریگولیشن 2000 قابل ذکر ہیں۔

پاکستان کے 2 نایاب قدرتی ذخائر

آخر میں پاکستان میں موجود 2 ایسے ذخائر کا ذکر کریں گے جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق کسی بھی ملک میں ماحول کی بہتری کے لیے اس کے 25 فیصد رقبہ پر جنگلات ہونا ضروری ہے۔

صنوبر کے جنگلات

بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

تیمر کے جنگلات

کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

کراچی میں تیمر کے جنگلات

لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

آئیں اس یوم آزادی کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ماحولیاتی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور ماحول کو مزید تباہی کی طرف جانے سے بچائیں گے۔

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ماہرین سے مدد لی گئی۔
رافع عالم ۔ ماحولیاتی وکیل
شبینہ فراز ۔ ماحولیاتی کارکن 

Comments

- Advertisement -