تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزرا قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں یورپ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی جس کے بعد دنیا نے عام مسلمانوں اور شدت پسندوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔

ان حملوں کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگیا اور وہاں برسوں سے رہنے والے مسلمانوں کو اپنے آس پاس کے افراد کی جانب سے نفرت انگیز یا تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض واقعات میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

تاہم اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو تمام مسلمانوں کو اس سے منسلک کرنا غلط سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے اور چند لوگوں کے مفادات کی خاطر کیے جانے والے قتل و غارت کی ذمہ داری پوری دنیا میں آباد مسلمانوں پر ڈالنا دانش مندانہ اقدام نہیں۔

یورپ میں جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا وہیں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب غیر مسلم افراد ہی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے اور انہیں اپنے لوگوں کے نفرت آمیز رویوں سے بچایا۔

مزید پڑھیں: پوپ فرانسس کی مسلمان خواتین کے حجاب کی حمایت

ایسا ہی ایک قدم پیرس سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ میرل نے اٹھایا اور اس نے لوگوں کے لیے ایک رہنما کتابچہ تیار کیا کہ اگر وہ کسی شخص کو کسی مسلمان خاتون کو ہراساں کرتے دیکھیں تو انہیں کیا کرنا چاہیئے۔

اس رہنما کتابچے کی تیاری کا خیال انہیں اپنے آس پاس بڑھتے اسلامو فوبیا کو دیکھ کر آیا۔ وہ کہتی ہیں، ’یورپ میں حملوں کے بعد میں نے دیکھا کہ بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مسلمان خواتین کا سفر کرنا محال ہوگیا۔ انہیں مسافروں کی گھورتی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ بعض مسافر ان سے بحث بھی کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے‘۔

وہ کہتی ہیں کہ اس ساری صورتحال سے کم از کم چند غیر مسلم افراد ایسے ضرور تھے جو الجھن کا شکار ہوتے اور وہ اس مسلمان کی مدد کرنا چاہتے لیکن وہ خود کو بے بس پاتے۔

انہوں نے سوچا کہ وہ ان چند اچھے افراد کو شعور دے سکیں کہ ایسی صورتحال میں انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ یہی سوچ ان کے اس رہنما کتابچے کی تخلیق کا سبب بنی۔

اس کتابچے میں انہوں نے 4 طریقے بتائے۔

:ابتدائی قدم

سب سے پہلے اگر آپ کسی مسلمان خاتون کو دیکھیں اور اس کے آس پاس کوئی ایسا شخص دیکھیں جو غلط ارادے سے اس کی طرف بڑھ رہا ہو، وہ اسے ہراساں کرنا چاہتا ہو، تو آپ اس خاتون کے ساتھ بیٹھ جائیں اور ان سے گفتگو شروع کردیں۔

:گفتگو کا موضوع

گفتگو کا موضوع مذہبی نہ ہو۔ یہ کوئی بھی عام سا موضوع ہوسکتا ہے جیسے موسم، فلم یا سیاسی حالات پر گفتگو۔

:لاتعلقی ظاہر کریں

اپنے آپ کو لاتعلق ظاہر کریں۔ نہ ہی اس خاتون کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ نے اس کے لیے کوئی خطرہ محسوس کیا ہے۔ نہ ہی ممکنہ حملہ آور کو احساس ہونے دیں کہ آپ نے اسے دیکھ لیا ہے اور اس کے عزائم سے واقف ہوگئے ہیں۔

:بحفاظت پہنچنے میں مدد دیں

گفتگو کو جاری رکھیں یہاں تک حملہ آور وہاں سے چلا جائے۔ اس کے بعد مسلمان خاتون کو بحفاظت وہاں تک پہنچنے میں مدد دیں جہاں وہ جانا چاہتی ہیں۔

islamophobia-2

میرل دو مزید چیزوں کی وضاحت کرتی ہیں، ’ایسی صورتحال میں لازمی طور پر 2 کام کریں۔ پہلا ممکنہ حملہ آور کو بالکل نظر انداز کریں۔ اس سے کسی بھی قسم کی گفتگو یا آئی کانٹیکٹ نہ رکھیں‘۔ ’دوسرا ممکنہ حملے کا نشانہ بننے والی خاتون کی خواہش کا احترام کریں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ چلے جائیں تو حملہ آور کے وہاں سے جانے کے بعد آپ بھی وہ جگہ چھوڑ دیں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ اس کے ساتھ رہیں تو سفر کے اختتام تک اس کے ساتھ رہیں‘۔

میرل کا کہنا ہے، ’اگر آج آپ کسی اجنبی مسلمان کی مدد کریں گی اور اسے مشکل سے بچائیں گی، تو کبھی کسی دوسرے مقام پر کوئی اور اجنبی مسلمان آپ کے کسی پیارے کو بھی کسی مشکل سے بچا سکتا ہے‘۔

Comments

- Advertisement -