تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

یہ ایوارڈ اس ادارے یا فرد کو دیا جانا تھا جو خواتین اور کم عمر لڑکیوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ ’ڈاکٹ ہرز‘ نامی یہ ادارہ غیر ترقی یافتہ اور مضافاتی علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

نیویارک میں جاری جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران منعقدہ ایوارڈز کی تقریب میں یہ ایوارڈ ادارے کی بانی ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے وصول کیا۔

اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے ادارے کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ ان کا ادارہ طبی سہولیات سے محروم خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ ادارہ موبائل، یا انٹرنیٹ سے ویڈیو کانفرنس / کال کے ذریعہ خواتین کو طبی آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان کی مختلف بیماریوں کے لیے علاج تجویز کرتا ہے۔

یہی نہیں یہ ادارہ کئی بیروزگار اور معاشی پریشانی کا شکار خواتین کو بھی مختلف طبی ٹریننگز دے کر ان کے ذریعہ روزگار کا سبب بن رہا ہے۔

ادارے سے منسلک ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ان ڈاکٹرز کو ماہر کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور مڈ وائفس کے ذریعہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ روبرو بھی مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔

ادارے کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ ڈاکٹر اشعر حسین اور انہوں نے 2014 میں ایک کمیونٹی ہیلتھ پروجیکٹ کے تحت تجرباتی طور پر شروع کیا۔ آغاز میں کراچی کے مضافاتی علاقہ سلطان آباد میں ویڈیو کنسلٹنگ کے ذریعہ خواتین کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ اس دوران 6 ماہ میں 100 خواتین اس سے مستفید ہوئیں۔

ڈاکٹر سارہ کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، مزید لوگ بھی شامل ہوتے گئے اور انہوں نے ڈاکٹر عفت ظفر کے ساتھ اس کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کردیا جس کے بعد اب پاکستان میں ان کے 9 ٹیلی کلینکس کام کر رہے ہیں۔ 6 کراچی کے مضافاتی علاقوں کورنگی، وائے ایریا لانڈھی، نیو لیاری، ضیا کالونی، بن قاسم اور بلدیہ ٹاؤن میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، 2 صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں دادار اور مانسہرہ جبکہ ایک پنجاب کے علاقہ حافظ آباد میں واقع ہے جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ایک  سال میں 22 ہزار افراد کو بالواسطہ اور ایک لاکھ افراد کو بلا واسطہ طبی امداد، طبی تربیت اور مختلف طبی سیشن فراہم کرچکا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

پاکستانی خواتین فلاحی اسپتالوں کی کیوں محتاج ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز کی تعداد صرف 1 لاکھ 57 ہزار 206 ہے یعنی 11 ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر۔ ان میں 74 ہزار خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور غیر ترقی یافتہ حصوں میں رہنے والوں میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو کسی قسم کی کوئی طبی امداد میسر نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جن خواتین کو ان کا ادارہ طبی امداد فراہم کرتا ہے ان میں 80 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں اگر اس ادارے کا آسرا نہ ہو تو انہیں زندگی بھر کوئی اور طبی امداد مل ہی نہیں سکتی۔

ڈاکٹر سارہ کے مطابق ہمارے ملک میں جاری بدترین صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ’ہمارے گھروں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اچھا کھانا بھی ان کے لیے، اچھی تعلیم بھی ان کے لیے، تمام سہولیات بھی انہیں میسر، اور اگر وہ بیمار پڑجائیں تو ہزاروں روپے خرچ کر کے بہترین ڈاکٹر سے ان کا علاج کروایا جائے گا‘۔ ’اگلی نسل کی ضامن ہونے کے باوجود لڑکیاں کم اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں اور اس کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے‘۔

ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہی صنفی تفریق لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی وجہ ہے جیسے لڑکی کوئی بوجھ ہو جس کی جلد سے جلد شادی کر کے بوجھ سے جان چھڑائی جائے۔

مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہی نہیں کم عمری کی شادیاں خواتین پر جنسی و گھریلو تشدد کا باعث بھی بنتی ہیں۔

ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ دوران علاج اکثر انہیں خواتین نے کمپیوٹر کی اسکرین پر اپنے مسائل بتانے، یا تکلیف کا شکار کوئی جسمانی حصہ دکھانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں ’اجازت‘ نہیں تھی۔

انہوں نے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں اوسٹوپروسس (ہڈیوں کی بوسیدگی / ٹوٹ پھوٹ کا عمل) کا مرض زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی خواتین اپنے ہم عمر مردوں کی نسبت 20 سے 30 فیصد زیادہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

کام کے دوران ان کی ٹیم کو کن خطرات کا سامنا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ اکثر مضافاتی علاقے مختلف سیاسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں تاہم  ڈاکٹر سارہ کی ٹیم علاقہ کی تمام پارٹیوں سے غیر جانبدارانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ملک میں جاری پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد ان کی ٹیم نے بھی غیر معمولی احتیاط کرنی شروع کردی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین عملہ کو ان علاقوں میں جانے کے بعد خراب ماحول کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ عموماً اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ جانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پولیو ٹیم پر حملہ، 4 ورکرز جاں بحق

اقوام متحدہ میں ملنے والا یہ ایوارڈ ڈاکٹر سارہ اور ان کی ٹیم کے خلوص اور انتھک محنت اور کاوشوں کا اعتراف ہے۔ ’یہ ایوارڈ ان آوازوں کے نام ہے جنہیں کوئی نہیں سنتا، ان خوابوں کے نام ہے جو پورا ہونا چاہتے ہیں مگر ہو نہیں پاتے، ان مریضوں کے نام ہیں جو قابل علاج بیماریوں کا بھی علاج نہیں کر سکتے اور ان عناصر کے خلاف ایک مزاحمت ہے جو ڈاکٹرز کو ان کے بنیادی فرض یعنی علاج کرنے سے روکتے ہیں‘۔

اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل گولز ایوارڈز گزشتہ برس مقرر کیے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں دیے گئے۔

ان کے تحت مزید 2 ایوارڈز ’دا گرل ایوارڈ‘ اور ’دا سوشل چینج ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ دا گرل ایوارڈ 16 سالہ شامی مہاجر لڑکی یسریٰ ماردینی کو دیا گیا جس نے شام سے ہجرت کے دوران اپنی کشتی کو حادثہ پیش آنے کے بعد جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرنے والے افراد کی رہنمائی کی۔ بعد ازاں اس لڑکی نے مہاجرین کی ٹیم میں شامل ہوکر ریو اولمپکس میں بھی شرکت کی۔

سوشل چینج ایوارڈ تنزانیہ سے تعق رکھنے والی وکیل ربیکا گیومی کو دیا گیا جنہوں نے تنزانیہ میں چائلڈ میرج کے خلاف انتھک کوششیں کیں۔

Comments

- Advertisement -