تازہ ترین

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

فرانسیسی پولیس نے ساحل سمندر پر خاتون کے کپڑے اتروا لیے

پیرس: فرانس کے شہر نیس کے ساحل پر پولیس نے برکنی پہننے کے شبہ میں ایک خاتون کو زبردستی اس کے لباس کا کچھ حصہ اتارنے پر مجبور کردیا۔ واقعہ نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کردیا۔

اب سے دو دن قبل فرانس میں ’باپردہ‘ بکنی ’برکنی‘ پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جس کے بعد پولیس کی جانب سے یہ اقدام دیکھنے میں آیا۔ برکنی حال ہی میں متعارف کروایا جانے والا ایک باپردہ سوئمنگ لباس ہے جسے مسلمان طبقوں کی جانب سے بے حد پذیرائی ملی۔

nice-5

اس کی مقبولیت میں اضافہ کے بعد غیر مسلم خواتین کی جانب سے بھی اس کی خریداری دیکھی گئی جس کے بعد فرانس میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔

اس پابندی کی توجیہ یہ پیش کی گئی کہ یہ لباس صرف ایک طبقہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے اس طبقہ کا تعلق دہشت گردی سے جوڑا گیا اور یوں یہ لباس شدت پسندی کے جذبات کے فروغ کی علامت کے طور پر لیا جانے لگا۔

جرمنی میں برقعے اور نقاب پر پابندی کا فیصلہ *

اسی پابندی کے پیش نظر نیس کے ساحل پر پولیس اہلکاروں کو پورے لباس میں موجود ایک خاتون پر برکنی پہننے کا گمان ہوا اور انہوں نے زبردستی اس کے لباس کا کچھ حصہ اتروا دیا۔

پولیس کی جانب سے خاتون پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور اسے ’روشن خیالی کے اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا۔

nice-2

nice-4

خاتون کے ساتھ ان کی بیٹی بھی موجود تھی جو اپنی والدہ کو پولیس کے نرغے میں گھرا دیکھ کر رونے لگی۔

بعد ازاں ایک عینی شاہد نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں موجود لوگوں کا ردعمل منفی تھا۔ ’لوگوں نے خاتون کے لیے ’گھر جاؤ‘ کی آوازیں کسیں، کچھ نے پولیس کے لیے تالیاں بھی بجائیں‘۔

پیرس حملوں کے بعد مسلمانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ *

واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سوال اٹھا دیا کہ کیا ایک سیکولر ملک میں لوگوں کو لباس بھی حکومت کی بنائی پالیسی کے مطابق پہننا ہوگا؟

لوگوں نے اسے شخصی آزادی پر قدغن کے مترادف قرار دیتے ہوئے پولیس کے اقدام کی مذمت کی۔

واضح رہے کہ 2015 میں پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد وہاں مقیم مسلمان حکومت اور عام لوگوں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا شکار ہیں اور انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ان حملوں میں 137 افراد مارے گئے تھے۔

اس کے بعد بھی یورپ کے کئی شہروں بشمول برسلز، نیس اور اورلینڈو میں دہشت گردانہ حملہ ہوئے جس نے دنیا بھر میں موجود مسلمانوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔

Comments

- Advertisement -