تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈیورنڈ لائن کا قیدی – قید سے رہائی تک

صحافت ایک پر خطر رستے پر سفر کرنے کا نام ہے جہاں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے دوران صحافی قید و بند سے لے کر موت جیسے انتہائی مرحلے تک بھی جاسکتے ہیں اور ایسی ہی ایک داستان اے آروائی نیوز سے وابستہ فیض اللہ خان کی ہے جسے انہوں نے ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘کے عنوان سے کتابی شکل میں تحریر کیا ہے۔

فیض اللہ خان اپریل2014 میں صحافتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے پاک افغان سرحدعبور کرکے افغانستان چلے گئے تھے جہاں انہیں افغان انٹیلی جنس نے گرفتارکرلیا تھا۔ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کی عدالت نے فیض اللہ کو بغیردستاویزات افغانستان آنے پر چار سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم اے آروائی نیوز‘ حکومتِ پاکستان‘ صحافتی تنظیموں اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مشترکہ کاوشوں کے سبب ان کی رہائی عمل میں آئی۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی اسی پر ابتلا دور کی یادداشتوں پر مبنی تحریر ہے۔

یہ کتاب فیض اللہ خان پر افغانستان میں قید دنوں کی آپ بیتی ہے اور اس کے ناشر زاہد علی خان ہیں۔ کتاب ایک ہزار کی تعدادمیں شائع کی گئی ہے اور اس کی قیمت پاکستان کے صارفین کے لیے550 روپے مختص کی گئی ہے۔

یہ کتاب 32 ابواب میں منقسم ہے اور اس کے صفحات کی کل تعداد 227 ہے۔ کتاب کی ابتدا میں عامر ہاشم خاکوانی نےا ظہارِ خیال کیا ہے جبکہ اے ایچ خانزادہ نے اظہارِ یکجہتی کے عنوان سے مضمون تحریر کیا ہے۔

ڈیورنڈ لائن


تقسیم ِ ہند سے قبل وائسرائے ہند نے والیٔ افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیربرائے امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک، معاہدہ ہواجس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا جو کہ ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔

معاہدے کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان ‘ اسمار‘ موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اورافغانستان استانیہ ‘ چمن ‘ نوچغائی ‘ باقی ماندہ وزیرستان ‘ بلند خیل ‘ کرم ‘ باجوڑ ‘ سوات ‘ بونیر ‘ دیر‘ چلاس اور چترال پراپنے دعوے سے 100 سال تک دستبردار ہوگیا تھا۔

کتاب کے بارے میں


ڈیورنڈ لائن کا قیدی نامی یہ کتاب معروف صحافی فیض اللہ خان کی یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں وہ تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کے انٹرویو کے لیے افغانستان جانے اور پھر وہاں قید ہونے سے لے کر رہائی تک کی اپنی داستاں بیان کررہے ہیں۔

فیض اللہ خان بنیادی طور پر صحافی ہیں اور سادہ زبان لکھنے کے عادی ہیں۔ ان کا یہی اندازِ تحریر کتاب میں بھی نظر آتا ہے ۔ کتاب میں انہوں نے اپنی داستان انتہائی سادہ اور سلیس اندازمیں بیان کی ہے اور ادبی اصلاحوں اور تصنع کے بغیر کتاب عام قاری کے لیے انتہائی آسان فہم ہے۔

فیض اللہ نے کو شش کی ہےکہ ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘ میں خود پر بیتے جانے والے واقعات کو وہ من و عن ایسے ہی بیان کردیں کہ جس طرح سے وہ ان پر بیتے‘ اوریقینی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

faiz-ullah-post-1

بعض مقامات پر کچھ ایسے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو کہ شاید فیض اللہ کے لیے قید کے دوران انتہائی اہم ہوں گے لیکن ایک عام قاری کے لیے ان میں دلچسپی کا پہلو ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے ‘ تاہم کیونکہ یہ ایک خطرناک اور دشوار گزار دنوں کی داستان ہے تو تھوڑی ہی دیر بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ آجاتا ہے جو قاری کی توجہ واپس اپنی جانب مبذول کرالیتا ہے۔

فیض اللہ کی اس داستان میں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صحافی ہونے کے باوجود جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بالخصوص جب وہ افغانستان کے انٹلی جنس سنٹر اور پھر جیل میں پالا پڑنے والے پاکستانی اور افغان اہلکاروں کے رویوں کا تقابل کرتے ہیں تو ان تکلیف دہ ایام کی تلخی ان کے لفظوں میں عود کرسامنے آجاتی ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے لہجہ نرم اور افغانستان سے وابستہ افراد کے لیے نسبتاً سخت ہوجاتا ہے۔

ڈیورنڈ لائن کا قیدی اپنے موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی حساس کتاب ہے۔ فیض اللہ پاکستان سے تحریکِ طالبان پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا انٹرویو کرنے نکلتے ہیں ‘جن کی تلاش میں ایک جانب تو پاکستانی افواج بھی ہیں تو امریکی اور افغان فورسز کے لیے بھی یہ گروہ کسی دردِ سر سے کم نہیں۔

کتاب کے مطالعے کے دوران یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ یہ آپ بیتی تاریخ کے ایک ایسے دھارے سےمنسلک ہےکہ جہاں یہ آپ بیتی سے بڑھ کر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور جب بھی افغانستان میں غیر ملکی قیدیوں کی تاریخ رقم کی جائے گی تو یہ کتاب بطور حوالہ کام آئے گی۔

فیض اللہ خان اپنی اس کاوش میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ تو آپ کتاب پڑھ کرہی کرسکیں گے تاہم یہ بات طے ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کی تاریخ میں یہ کتاب بطور اہم حوالہ ضرور کارگر ثابت ہوگی۔

فیض اللہ خان کے بارے میں


ڈیورنڈ لائن کے مصنف فیض اللہ خان نے جامعہ کراچی سے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں گرایجویشن کیا ہے‘ اس سے قبل قبل اعلیٰ ثانوی تعلیم اسلامیہ کالج اور ثانوی تعلیم اقبالِ ملت اسکول سے حاصل کی۔

faiz-ullah-post-2

فیض اللہ خان گزشتہ ایک دہائی سے اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں اور چینل کے لیے وکلا تحریک، عدالتی، سیاسی امور، سماجی مسائل اور دہشت گردی کے مختلف واقعات کی فیچر پیکجز کے ذریعے اور براہ راست رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

اے آر وائی کے ساتھ ان کا سفر اچھے انداز میں جاری ہے اور وہ اے آر وائی ویب کے لیے مختلف موضوعات پر بلاگ بھی لکھتے رہتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں