تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

دنیا کے باشعور افراد کا ماننا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لیے تمام آبادی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دنیا کی نصف آبادی تو گھر بیٹھے، اور پھر ہم یہ توقع بھی کریں کہ دنیا جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔ دراصل یہاں ’نصف آبادی‘ خواتین کی طرف اشارہ ہے جو نصف اب سے کچھ سال پہلے تک تھیں، اب ان کی تعداد مردوں سے دگنی ہوچکی ہے۔

اکیسویں صدی کے دور میں اب یہ محاورہ پرانا ہوچکا ہے، ’ایک کمانے والا اور دس کھانے والے‘۔ جدید دور میں وہی گھرانہ یا قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کم از کم 8 ’کمانے والے‘ موجود ہیں، اور خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔

حمیدہ خاتون بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں مگر ان کی کم علمی ان کے پیروں کی زنجیر ہے۔

حمیدہ خاتون سومار گوٹھ کی رہائشی ہیں جو کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ساحلی گاؤں ہے۔ سمندر کنارے واقع، 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے مردوں کا پیشہ تو مچھلی پکڑنا ہے البتہ خواتین صرف گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور گاؤں کی معیشت میں ان کا کوئی کردار نہیں۔

حمیدہ بی بی اور ان کی رشتہ دار خاتون زیتون

گاؤں دیہاتوں میں عموماً خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ کچھ دیہاتوں میں پانی کی سہولت نہ ہونے باعث وہ میلوں دور پیدل چل کر جاتی ہیں اور پانی بھر کر لاتی ہیں۔ لیکن سومار گوٹھ ان تمام دیہاتوں سے نسبتاً ’جدید‘ گاؤں ہے۔ یہاں باتھ روم بھی ہیں، اور پائپوں سے متصل نلکے بھی، جن میں ہفتے میں چند دن پانی آہی جاتا ہے۔ اس گاؤں کا اصل مسئلہ غربت ہے۔

کبھی یہاں آباد گاؤں والے بہت خوشحال ہوا کرتے تھے۔ سمندر میں مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ بہت کچھ تبدیل ہونے لگا۔ شہری آبادی نے جہاں سمندروں کو آلودہ کر کے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، وہیں سمندری حیات بھی اس سے محفوظ نہ رہی۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے فضلے نے کمزور سمندری حیات کا تو وجود ختم کردیا، جو ذرا سخت جان تھیں، وہ یہ وار سہہ گئیں لیکن اس قابل نہ رہیں کہ کسی انسان کی خوارک بن سکتیں۔

حمیدہ خاتون کے مطابق جب حالات بہتر تھے تو ’مندی‘ کے دن بھی آسانی سے گزر جاتے تھے۔

کشتیاں گاؤں والوں کا واحد ذریعہ روزگار ہیں

یہ ’مندی‘ دراصل ان 4 مہینوں میں آتی ہے جن دنوں سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور مچھیرے سمندر میں نہیں جا پاتے۔ مچھیروں کی کشتیاں کمزور ہیں اور سمندر کی تیز، چیختی چنگھاڑتی لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ یہ 4 مہینے مچھیرے تقریباً گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے جالوں اور کشتیوں کی مرمت کرتے ہیں۔

خواتین معاشی عمل کا حصہ کیسے؟

حمیدہ خاتون بتاتی ہیں کہ جب حالات اچھے تھے تب تو تصور ہی نہیں تھا کہ عورتیں کچھ کمانے کی کوشش کریں۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور مرد بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ خواتین کو باہر جانے کی اجازت دیں۔

لیکن خواتین کے پاس نہ ہی تو تعلیم ہے، نہ کوئی ہنر۔ کچھ خواتین نے شہروں میں جا کر قسمت آزمائی کی تو انہیں گھروں میں صفائی کرنے کا کام مل گیا۔ لیکن شہر میں رہائش، کھانا پینا اور ہفتے میں ایک بار گاؤں آنے جانے کے اخراجات اتنے تھے کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر والوں کو کچھ نہ دے پاتیں یوں انہوں نے واپس گاؤں آنے میں ہی عافیت جانی۔

حمیدہ خاتون کی ایک اور رشتہ دار نوجوان خاتون زیتون نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ جب گاؤں میں پولیو مہم شروع ہوتی ہے تو انتظامیہ کو خواتین رضا کاروں کی تلاش ہوتی ہے۔ تب وہ اس موقع کو حاصل کرتی ہیں اور گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ 3 یا 4 دن تک جاری اس پولیو مہم میں حصہ لینے کے انہیں 2 ہزار روپے ملتے ہیں۔

ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی بچے وافر تعداد میں تھے۔ میں نے سوال کیا کہ، جب لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہے، اور وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی تعداد میں بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟

میرا سوال سن کر حمیدہ بی بی اور زیتون ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔ شاید انہوں نے اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔ بعد میں حمیدہ بی بی نے دھیمی آواز میں کہا، ’کیا کریں مرد سنتے ہی نہیں ہیں‘۔

حمیدہ بی بی کا شوہر شکار کے دوران کشتی میں گر پڑا تھا جس کی وجہ سے اسے کمر میں شدید چوٹ آئی۔ اب وہ کوئی کام کرنے سے محروم ہے اور پچھلے ایک سال سے گھر میں ہے۔ حمیدہ بی بی نے بعد ازاں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’وہ میرا شوہر ہے۔ ایک سال سے گھر پر پڑا ہے۔ بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے‘۔ یہ کہہ کر وہ ڈوپٹے کے پلو میں منہ چھپا کر ہنسنے لگی۔

گاؤں کے بچے گرین کریسنٹ نامی تنظیم کی جانب سے قائم کردہ ایک اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اسکول میں صرف 50 یا 100 روپے (پڑھنے والے کی مالی استعداد کے مطابق) فیس وصول کی جاتی ہے۔ دو کمروں پر مشتمل صاف ستھرا اسکول حقیقی معنوں میں گاؤں کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔

گاؤں میں واقع مڈل اسکول

لیکن یہ اسکول صرف مڈل تک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی اور تعلیمی ادارہ نہیں۔ گاؤں والے اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے کہیں اور بھیج سکیں، یوں بچے تعلیم حاصل کرنے اور ان کے والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی حسرت دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔

حمیدہ خاتون نے اپنی بیٹی سے بھی ملوایا۔ ’اس نے اس سال اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں‘۔ حمیدہ بی بی نے فخر سے بتایا۔

ان کے 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں اور حمیدہ بی بی کے مطابق سب ہی کو پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔

مسائل کیا ہیں؟

سمندر کنارے واقع اس گاؤں میں پینے کی پانی کی شدید قلت ہے۔ گاؤں میں نلکے تو موجود ہیں لیکن ان میں پانی نہیں۔ یہاں ایک آر او پلانٹ لگایا گیا ہے اور گاؤں والے اس کا پانی خرید کر پیتے ہیں۔

اسی طرح بجلی کا بھی مسئلہ ہے جو کم و بیش ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ گاؤں میں 18 سے 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، یوں اس گاؤں اور ان دیگر پسماندہ دیہاتوں میں کوئی فرق نہیں رہتا جہاں سورج ڈھلتے ہی اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔

جس وقت ہم وہاں گئے ہمیں ماڑی پور روڈ سے آنے کے بجائے دوسرے متبادل اور لمبے راستے سے آنا پڑا کیونکہ ماڑی پور روڈ پر مختلف دیہاتوں کے لوگ بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور سڑک بند تھی۔

گاؤں میں بجلی کے تار تو ہیں مگر بجلی نہیں

میں نے اس سے قبل جتنے بھی دیہاتوں کا دورہ کیا تھا وہاں باتھ رومز کی عدم دستیابی پائی تھی جو خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھی۔ اس بارے میں جب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر گھر میں ایک ٹوٹا پھوٹا باتھ روم ضرور موجود ہے جسے سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ ان میں سے کچھ باتھ رومز ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنوائے گئے ہیں۔

البتہ حمیدہ بی بی نے یہ بتا کر میری خوشی ماند کردی کہ ان کے اپنے گھر کا باتھ روم اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ وہ قابل استعمال نہیں رہا تھا، اور اس ضرورت کے لیے وہ اپنے والد کے گھر آتی تھیں جو ان کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ باتھ روم کی از سر نو تعمیر میں وہی غربت حائل تھی۔

غربت کا عفریت

گاؤں کی معاشی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندری آلودگی کی وجہ سے ویسے ہی سمندر میں مچھلیاں کم ہیں۔ اوپر سے سمندر کی پابندی کے 4 ماہ مشکل ترین بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ گاؤں والے مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر میں بہت آگے تک چلے جاتے جہاں تعینات کوسٹ گارڈز انہیں پکڑ لیتے ہیں۔

’ایک دفعہ انہوں نے سب کو بہت برا مارا‘۔ حمیدہ خاتون نے بتایا۔ ’انہوں نے ہنٹر کا استعمال کیا اور میرے شوہر سمیت کئی لوگوں کو مرغا بھی بنادیا۔ میرا بیٹا زخموں کی وجہ سے 2 دن تک اٹھ نہیں پایا‘۔

حمیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جان بوجھ کر قانون شکنی نہیں کرتے۔ شدید بھوک اور غربت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مچھلی کا شکار کرنے والے خود ایک عرصہ سے مچھلی کھانے کے لیے ترس رہے ہیں کیونکہ جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ بیچ دی جاتی ہے۔

یہاں شکار کی ہوئی مچھلی کو 20 سے 30 روپے کلو میں بیچا جاتا ہے۔ یہ خریداری ان سے ’بروکرز‘ کرتے ہیں جو شہر جا کر یہی مچھلی 300 سے 400 روپے میں بیچتے ہیں۔

وہ خود کیوں نہیں اس مچھلی کو شہر لے جا کر بیچتے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ شہر جانے کے لیے سواری کا بندوبست کرنا، وہاں آنا اور پھر جانا اس قدر مہنگا اور تھکن طلب کام ہے کہ جو دگنی قیمت وہ شہر جا کر کمائیں گے وہ آنے اور جانے کے کرایوں کی ہی نذر ہوجائے گی۔ ’شہر کوئی نہیں جانا چاہتا‘۔

شکار کے مہینوں میں بھی شکار پر جانا اتنا آسان نہیں۔ غربت کی وجہ سے بعض خاندان کشتی نہیں خرید پاتے۔ یوں 2 یا 3 گھر مل کر ایک کشتی خریدتے ہیں اور جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے اس میں تمام گھروں کا حصہ ہوتا ہے۔

پابندی کے مہینوں میں گاؤں والے آس پاس کے دیہاتوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس کے عادی نہیں لہٰذا یہ ان کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ حمیدہ خاتون کا بیٹا بھی سائن بورڈز کی پینٹنگ کا کام کرتا ہے تاہم کم علم ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ کام نہیں ملتا۔

شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال

جن دنوں مرد شکار پر نہیں جاتے ان دنوں وہ گھر پر رہ کر اپنے جالوں کی مرمت بھی کرتے ہیں۔ خواتین ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں تاہم یہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ جالوں کی بنائی میں رسی، ڈوری اور نائیلون استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں اور ان پر چھالے پڑجاتے ہیں۔

جال تیاری کے مراحل میں

حمیدہ بی بی نے بتایا کہ کچھ مخیر حضرات کبھی کبھار راشن دینے کے لیے آتے ہیں لیکن وہ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں اور اس کے توسط سے گاؤں والوں کو جو راشن ملتا ہے وہ سب کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

ان کی جانب سے کچھ لوگ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

گاؤں والے ’کلائمٹ چینج‘ سے واقف ہیں

دنیا بھر کے ماہرین ابھی تک لوگوں کو یقین دلانے کی کوششوں میں ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث کس قدر خطرات کا شکار ہے اور ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ دنیا کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا، تاہم دنیا ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہے۔

البتہ سومار گوٹھ کے رہنے والے ’کلائمٹ چینج‘ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور زمین ختم ہو رہی ہے۔

منہ زور سمندر 4 ماہ تک گاؤں والوں کو فاقے کرنے پر مجبور کردیتا ہے

گاؤں کے پہلے سرے پر واقع جامع مسجد کبھی گاؤں کے آخری سرے پر قائم تھی۔ لیکن سمندر آگے آتا گیا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کو اپنی رہائش پیچھے منتقل کرنی پڑی یوں پورا گاؤں اب کئی فٹ پیچھے چلا گیا ہے۔ گھروں کو دور منتقل کرنے کی وجہ سیلاب بھی تھے۔ سیلاب کے وقت سب سے آگے گھروں کو زیادہ نقصان پہنچتا تھا چنانچہ گاؤں والے سمندر سے دور چلے گئے۔

تاہم گاؤں والوں کے گھر اب بھی غیر محفوظ ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑتا ہے جبکہ تیز بارش میں بھی وہ اپنے گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ’کچے گھر بارش سے کیسے بچا سکتے ہیں‘۔

گاؤں میں سمندر کنارے اب صرف مسجد ہے جس کی بیرونی دیوار لہروں کے ساتھ مستقل تصادم کے باعث مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔

حمیدہ خاتون کو شہر والوں کی صنعتی ترقی سے بھی شکوہ ہے۔ ’یہ اپنی فیکٹریوں سے زہر والا پانی چھوڑ دیتے ہیں جس سے مچھلیاں مرجاتی ہیں، جو زندہ ہوتی ہیں وہ بیمار ہوتی ہیں، ان کو ہم کھا نہیں سکتے‘۔

مداوا کیا ہے؟

گاؤں میں سرگرم عمل ایک فلاحی تنظیم ’کاریتاس‘ حقیقی معنوں میں گاؤں کے لوگوں کا سہارا ہے۔ بقول حمیدہ بی بی کے مذکورہ تنظیم کے علاوہ انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ ’ادھر نثار مورائی آیا، سنیعہ ناز (رکن سندھ اسمبلی) آئی، آکر دلاسے دیے، کیا کچھ بھی نہیں‘۔

جب میں نے انہیں بتایا کہ فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی آج کل جیل میں ہیں تو حمیدہ بی بی کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی، ’نثار مورائی کو پکڑ لیا؟ چلو اچھا ہی ہوا‘۔

تنظیم کے کوآرڈینیٹر منشا نور کے مطابق خواتین کو صرف، شیمپو اور بلیچ بنانے کی ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ وہ گاؤں کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مچھلی کے جال بھی اکثر گھروں میں کاریتاس ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ ایک جال مشترکہ طور پر 2 یا 3 گھروں کی ملکیت ہوتا ہے۔

گاؤں میں سرگرم عمل تنظیم ’کاریتاس‘ کے کوآرڈینیٹر منشا نور

انہوں نے مقامی آبادی کو مون سون کے حوالے سے بھی آگہی دی ہے جبکہ انفارمیشن شیئرنگ کا ایک سسٹم بھی قائم کیا گیا تاکہ سیلاب آنے کی صورت میں لوگ پہلے سے تیار رہیں۔

پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مستقبل قریب میں یہ پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینکس بنوانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ ہینڈ پمپس اس لیے کارآمد نہیں کیونکہ زیر زمین تمام پانی سمندر کی وجہ سے نمکین ہے۔

حمیدہ بی بی کی رشتہ دار خاتون زیتون نے مجھے بتایا کہ اسے سلائی کڑھائی کا شوق ہے اور اپنے اس شوق سے وہ پیسہ بھی کمانا چاہتی ہے۔ ’ہم نے کاریتاس والوں سے کہا ہے کہ وہ ہمیں سلائی کا کام بھی سکھائیں‘۔

خواتین کیسے گزارا کرتی ہیں؟

اس سفر کا حاصل سفر ثمینہ محمد علی سے ملاقات رہی۔ ثمینہ مڈل پاس اور گاؤں کی لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ وہ یہیں کی رہائشی ہیں اور ان کی ذہانت کی بدولت حکومت کی جانب سے انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

ثمینہ محمد علی

انہوں نے بتایا کہ وہ گاؤں والوں کی کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں کا علاج کردیتی ہیں جبکہ پولیو مہم کے دوران وہ گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام بھی انجام دیتی ہیں۔

انہیں ادویات صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے بھجوائی جاتی ہیں مگر اکثر اوقات اس میں تاخیر ہوجاتی ہے اور وہ خود ہی ماڑی پور جا کر اپنے پیسوں سے دوائیں خرید لاتی ہیں۔

اس سے قبل حمیدہ بی بی بتا چکی تھیں کہ گاؤں میں کوئی باقاعدہ اسپتال نہیں، اور خواتین کی زچگی کے لیے پورے گاؤں میں صرف ایک دائی موجود ہے۔ نارمل ڈلیوری گھر پر ہی ہوجاتی ہے البتہ کسی پیچیدگی کی صورت میں شہر جانا پڑتا ہے۔ قریب ترین شہر ماڑی پور ہے جہاں کا زیب النسا اسپتال ان گاؤں والوں کا سہارا ہے۔

کئی بار ایسا بھی ہوا کہ گاڑی کا بندوبست کرنے میں اتنی دیر لگی کہ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی بچے کی ولادت ہوگئی۔

اس حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ کئی بار حکومت کی جانب سے انہیں ٹریننگ دینے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے منع کردیا۔ ’میری ہمت نہیں ہوتی اتنا بڑا کام کرنے کی، اس لیے میں نے منع کردیا‘۔

البتہ ضرورت کے وقت ثمینہ گاؤں میں موجود دائی زرینہ کی مدد ضرور کرتی ہیں۔ ان کا گھر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری معلوم ہوتا ہے جہاں انہوں نے ویٹ مشین بھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ بچوں اور خواتین کا وزن کرتی ہیں اور حمل کے دوران خواتین کو مشورے بھی دیتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس خاندانی منصوبہ بندی کا سامان بھی ہے۔ کیا لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی بھی ہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے کئی لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں۔ ’لوگوں کو شعور ہے اس بارے میں‘۔

یہی نہیں سال میں اگر کوئی خصوصی مہم جیسے انسداد ڈینگی یا انسداد خسرہ مہم چلائی جاتی ہے تو گاؤں والے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

رخصت ہوتے وقت ثمینہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی حکومت کے محکمہ سے آئی ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اے آر وائی نیوز کی نمائندہ ہوں تو ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے جوش سے بتایا، ’ہم بہت شوق سے اے آر وائی دیکھتے ہیں‘۔

بعد ازاں جب ان کے گھر کی ایک خاتون نے میرے متعلق دریافت کیا تو ثمینہ نے انہیں بتایا، ’اماں یہ آے آر وائی سے آئی ہیں۔ اپنا اے آر وائی، جو ہم روز دیکھتے ہیں‘۔

غالباً گاؤں والوں کی واحد تفریح اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ہی تھے۔

سندھ کے بے شمار دیہاتوں کی طرح سومار گوٹھ بھی ایک محروم گاؤں ہے۔ سندھ میں لاتعداد گاؤں ایسے بھی ہیں جو بنیادی سہولتوں سے اس حد تک محروم ہیں کہ وہاں جا کر آپ خود کو پندرہویں صدی میں محسوس کرتے ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ گاؤں ترقی کر کے جلد جدید دنیا کے ساتھ آ کھڑا ہوگا لیکن گاؤں والوں کے دل خوش فہم کو امیدیں باقی ہیں، اور یہی ان کے جینے کا سہارا ہیں۔

Comments

- Advertisement -