تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

حلب میں جنگ سے متاثر بچے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار

حلب: اقوام متحدہ کے ادارہ اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ شام کے جنگ زدہ شہر حلب میں خوفناک بربادی و تباہی دیکھنے والے بچے شدید صدمے اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

حلب میں یونیسف کے فیلڈ آفس کے نگران رڈوسلا رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں تمام بچے اس سے متاثر ہیں اور تمام ہی بچے صدموں اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

رزاک گزشتہ 15 سال سے یونیسف کے لیے حلب میں کام کر رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچوں کی نفسیات میں یہ ڈرامائی اور پریشان کن تبدیلیاں پہلی بار دیکھی ہیں۔

child-2

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی سے اب تک 8 ہزار سے زائد بچے متاثر ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں بچے جنگ کے دوران مارے گئے، کئی ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ساتھ قیدی بنا لیے گئے اور قید خانوں میں انہوں نے سخت اذیتیں سہیں۔

یونیسف اہلکار رزاک کا کہنا ہے کہ حلب میں نصف سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج اور جذباتی سہارے کی ضرورت ہے، ان میں سے بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جنہیں طویل عرصہ تک ماہرین کی زیر نگرانی طبی و نفسیاتی علاج چاہیئے۔

:دوران جنگ پیدا ہونے والے بچے

یونیسف کے مطابق حلب میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو جنگ شروع ہونے کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی عمریں اب 1 سے 5 سال کے درمیان ہیں اور اس مختصر زندگی میں انہوں نے سوائے خون خرابے اور بمباری کے کچھ نہیں دیکھا۔ ’اس نے ان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے‘۔

رزاک نے بتایا کہ ان بچوں کے لیے یہ ایک معمول کی سی بات بن گئی ہے کہ وہ کئی دن تک بھوکے رہیں، بمباری ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگیں یا اپنے والدین کے ساتھ زیر زمین بنکرز میں جا چھپیں۔ ’یہ ان کے لیے کوئی خطرے والی بات نہیں۔ یہ ان کے لیے روزمرہ کی معمول کی زندگی ہے‘۔

مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

رزاک کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کے بھی عادی نہیں کہ ان کے والدین کو ان کی حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ بمباری کے وقت ان کے والدین خود اپنی جانیں بچانے کی جدوجہد کرتے ہیں، علاوہ ازیں وہ خود اپنے لیے بھوک پیاس اور مختلف نفسیاتی مسائل سے برسر پیکار ہیں۔

واضح رہے کہ مارچ 2011 سے شروع ہونے والی شام کی اس خانہ جنگی میں اب تک 3 لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں ایسے ہیں جو شام سے ہجرت کر چکے ہیں اور مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں یا پناہ کی تلاش میں تا حال دربدر پھر رہے ہیں۔

Comments

- Advertisement -