تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

برطانیہ یورپین یونین کا حصہ رہے گا یا نہیں، فیصلہ 23 جون کو ہو گا

لندن: یورپین یونین میں رہنے یا علیحدگی اختیار کرنے سے متعلق برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم کئی بار تعطل کا شکار رہنے کے بعد اب 23 جون بروز جمعرات کو ہونے جا رہے ہیں،برطانوی کابینہ سمیت برطانوی عوام اس معاملے پر منقسم نظر آتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے یورپی یونین کا حصہ رہنے یا اس سے علیحدگی اختیار کرنے سے متعلق ریفرنڈم رواں سال 23 جون کو کروانے کا اعلان کیا ہے ڈیوڈ کیمرون کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس ریفرنڈم میں ’ہم اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کریں گے۔

یہ پہلا موقع نہیں بلکہ یورپین یونین کے قیام سے ہی باہمی اتحاد واتفاق کے فقدان سے نبرد آازما رہی ہے،یہ اتحاد اس اور مزید خطرے میں پڑ گیا جب ممبر ممالک کی معاشی صورتحال اور یونین ممالک کے لیے ایک دوسرے ملک میں جانا بہت سہل ہو گیا جس کے باعث بعد دس لاکھ سے زائد مہاجرین کی یورپ آپہنچے جن کی آبادکاری، ملازمت اور رہائش جیسے مسائل کے سدباب کے لیے کوئی قابل عمل فارمولا موجود نہ تھا،ان مسائل کے باعث یوپین یونین کا اتحاد خطرے میں ہے۔

برطانیہ تاریخی طور پر بھی یورپین یونین سے اتحاد کے لیے رائے عامہ ہموار نہیں کرسکا ہے،تاحال برطانیوی عوام یورپین یونین میں شمولیت برقرار رکھنے کے فیصلے میں منقسم نظر آتی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ بھی اس ریفرنڈم میں یکجا نظر نہیں آتے،کچھ وزراءکی خواہش ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو خیر آباد ہی کہہ دینا ملک کے مفاد میں ہے۔

ڈیوڈ کیمرون کا خیال ہے کہ یورپین یونین میں ہی رہنے میں ہی ملکی ترقی اور باقی ماندہ دنیا سے جڑے رہنے کا راز پنہاں ہے،ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو چھوڑنا اندھیرے میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے،ڈیوڈ کیمرون نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیںایسا ہی موقف برطانیہ کی وزیرِ داخلہ ٹریسا مئی بھی رکھتی ہیں۔

جب کہ دوسری طرف وزیرِ قانون مائیکل گوویورپی یونین کو چھوڑنے کے حق میں ووٹ ڈالنے کی مہم چلارہے ہیں،اس کے علاوہ یو کے انڈپینڈنس پارٹی کے نائجل فراج بھی برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی کے حق میں ہیں،وہ برطانیہ کے آزاد، خود مختار اور اپنی تہزیب و تمدن کو برقرا رکھنے کے لیے یورپین یونین سے الگ ہونے میں سمجھتے ہیں۔

برطانوی وزیر خزانہ جارج اوسبورن نے اس تمام صورتَ حال پر معتدل رائے رکھتے ہیں،وہ اس تمام صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریفرنڈم کو انتحائی سنجیدہ مسئلہ قرار دے رہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ یورپین یونین کا حسہ رہنے یا علیحدگی اختیار کرنے کے فیصلے سے ہمارے معاشی،سیاسی اور تہذیبی معاماملات جڑے ہوئے ہیں،جس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔

دوسر جانب یورپی یونین کے اجلاس میں یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ڈسک نے برطانیہ کو یورپین یونین میں شامل رکھنے کے لیے خصوصی درجہ دینے کا اعلان کیا ہے ،ڈونلڈ ڈسک کا کہنا تھا مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کو یورپ کی اور یورپ کو برطانیہ کی ضرورت ہے تاہم آخری فیصلہ برطانوی عوام کے ہاتھ میں ہے۔

اسی طرح معاشی اعتبار سے مستحکم ممالک کے وزرائے خزانہ نے برطانیہ کو بآور کروایا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا ’دھچکا‘ ثابت ہوگی۔

برطانوی کابینہ کا یورپین یونین میں رہنے یا علیحدہ ہونے پر ایک فیصلہ نہ کر پانا،اپوزیشن جماعتوں کا دباؤ اور یورپین کونسال کی حالیہ نوازشات ایک طرف مگر دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی عوام اس معاملے پر 23 جون کو ہونے والے ریفرنڈم کو کیا فیصلہ دیتی ہے کیوں کہ بہرحال حتمی رائے عوام کی ہی ہو گی۔

Comments

- Advertisement -