تازہ ترین

جام شورو انڈس ہائی وے پر خوفناک حادثہ، 6 افراد جاں بحق

دادو : جام شورو انڈس ہائی وے پر ٹریفک...

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر امریکا کا ردعمل

واشنگٹن: امریکا نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)...

مسلح افواج کو قوم کی حمایت حاصل ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

ملت ایکسپریس واقعہ : خاتون کی موت کے حوالے سے ترجمان ریلویز کا اہم بیان آگیا

ترجمان ریلویز بابر رضا کا ملت ایکسپریس واقعے میں...

ایبولا خطرناک کیوں ہے اور کیا اس کا علاج ممکن ہے؟

دنیا کی تاریخ میں کم ہی اتنی خوفناک بیماریاں سامنے آئی ہیں جتنی خوفناک ایبولا وائرس کی بیماری ہے۔ اس وائرس کے شکار کا مدافعتی نظام ناکارہ ہوجاتا ہے اور جسم سے خون رسنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب تک مغربی افریقہ میں 6000 سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اب یہ دیگر ممالک تک بھی پہنچ رہا ہے۔

حال ہی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو بھی خبردار کردیا ہے کہ اس وائرس کا یہاں پہنچنے کا شدید خطرہ ہے اور فوری حفاظتی اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ دہشت ناک وائرس کیسے پھیلتا ہے اور اس کا علاج کیسے ہوتا ہے، چند اہم حقائق یہ ہیں۔

ایبولا جسم میں کیسے داخل ہوتا ہے؟

ایبولا متاثرین کے خون میں تقریباً پانچ دن کے بعد اربوں کی تعداد میں ایبولا ذرات موجود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان مریضوں کے خون یا ناک، منہ یا دیگر اعضاءسے خارج ہونے والی کسی بھی رطوبت کا شکار ہوجائے تو اس کے جسم میں بھی ایبولا وائرس داخل ہوجاتا ہے۔

ایبولا سے موت کیسے ہوتی ہے؟

ایبولا وائرس جسم میں داخل ہوکر مدافعتی نظام کو خبردار کرنے والے خلیوں پر بھاری پروٹین کی تہہ جما دیتا ہے جس کے باعث مدافعتی نظام خبردار نہیں ہوپاتا اور یہ وائرس تیزی سے افزائش کرتا ہے۔ بالآکر مدافعتی نظام ایمرجنسی ردعمل کرتا ہے اور نتیجتاً جسم کے اندرونی خلیے اور خون کی شریانیں تباہ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور جگہ جگہ سے خون رسنے کے باعث مریض ہلاک ہوجاتا ہے۔

ایبولا کا پھیلاؤ

یہ وائرس خشک سطحوں جیسے کہ دروازے کا ہینڈل یا میز کی سطح پر بھی گھنٹوں زندہ رہ سکتا ہے اور تھوک، خون اور جنسی رطوبتوں میں بھی زندہ رہتا ہے لہٰذا جہاں بھی مریض کی یہ رطوبتیں موجود ہوں گی وہاں سے یہ دوسرے لوگوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ ہوا کہ ذریعے نہیں پھیلتا۔

ایبولا کا علاج

تاحال اس جان لیوا وائرس کیلئے کوئی موثر دوا یا ویکسین دستیاب نہیں اور اس کے اکثر شکاروں کا مرنا یقینی ہے۔ ڈاکٹروں نے مصنوعی تنفس، مدافعتی نظام کا قائم رکھنے والی ادویات اور جسمانی نظام کو بحال رکھنے کے غیر معمولی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کچھ مریضوں کی جان بچائی ہے تاہم یہ انتہائی بھاری اخراجات کا کام ہے جس کا پاکستان جیسے ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، امریکہ میں اس علاج کا خرچ تقریباً ایک لاکھ روپے فی گھنٹہ ہے۔

آج کل دنیا میں ایبولا وائرس نامی وبا نے خوف پھیلا رکھا ہے جس نے ایک اندازے کے مطابق اب تک سات ہزار سے زائد افراد کو اپنا شکار بنایا ہے، فروری سے افریقی ممالک میں وباء کی طرح پھیلنے والا ایبولا وائرس ایسا جان لیوا ہے، جو متاثرہ شخص کی جسمانی رطوبتوں کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پھیلتا ہے۔ دنیا بھر میں ایبولا وائرس سے متاثرہ نوے فیصد تک لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایبولا وائرس متاثرہ علاقوں میں اب تک نوسو سے زیادہ افراد کی جان لے چکا ہے، ہلاک ہونے والے متاثرہ افراد میں سے دو سو بیاسی کا تعلق کا لائیبیریا سے ہے، برس یہ مغربی افریقہ میں ایک وبا کی شکل میں سامنے آیا اور گیانا، سیریا ون، لائبریا اور نائیجریا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے بعد عالمی سطح پر ایبولا کے بچاؤ اور اس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔

Comments

- Advertisement -